سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
10. بَابٌ في الْقَدَرِ
باب: قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 90
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ، وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِيئَةٍ يَعْمَلُهَا".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر کو نیکی کے سوا کوئی چیز نہیں بڑھاتی ۱؎، اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں بدلتی ہے ۲؎، اور آدمی گناہوں کے ارتکاب کے سبب رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2093، ومصباح الزجاجة: 34)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/502، 5/277) (حسن)» ‏‏‏‏ (حدیث کے آخری ٹکڑے: «وإن الرجل ليحرم الرزق بخطيئة يعملها» یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 154، یہ حدیث آگے (4022) نمبر پر آ رہی ہے)

وضاحت: ۱؎: یعنی نیکی سے عمر میں برکت ہوتی ہے، اور وہ ضائع ہونے سے محفوظ رہتی ہے، یا نیکی کا ثواب مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  «والباقيات الصالحات خير عند ربك ثوابا وخير أملا» اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ازروئے ثواب اور آئندہ کی اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں (سورۃ الکہف: ۴۶) تو گویا عمر بڑھ گئی یا لوح محفوظ میں جو عمر لکھی تھی اس سے زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  «يمحو الله ما يشاء ويثبت» یعنی: اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے اور جو چاہے ثابت رکھے (سورۃ الرعد: ۳۹)، یا ملک الموت نے جو عمر اس کی معلوم کی تھی اس سے بڑھ جاتی ہے، اگرچہ علم الہی میں جو تھی وہی رہتی ہے، اس لئے کہ علم الہی میں موجود چیز کا اس سے پیچھے رہ جانا محال ہے۔ ۲؎: تقدیر کو دعا کے سوا ... الخ یعنی مصائب اور بلیات جن سے آدمی ڈرتا ہے دعا سے دور ہو جاتی ہیں، اور مجازاً ان بلاؤں کو تقدیر فرمایا، دعا سے جو مصیبت تقدیر میں لکھی ہے آتی ہے مگر سہل ہو جاتی ہے، اور صبر کی توفیق عنایت ہوتی ہے، اس سے وہ آسان ہو جاتی ہے تو گویا وہ مصیب لوٹ گئی۔

قال الشيخ الألباني: حسن دون وإن الرجل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث90  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر کو نیکی کے سوا کوئی چیز نہیں بڑھاتی ۱؎، اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں بدلتی ہے ۲؎، اور آدمی گناہوں کے ارتکاب کے سبب رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 90]
اردو حاشہ:
(1)
یہ روایت بعض محققین کے نزدیک حسن درجے کی ہے جو عندالمحدثین قابل حجت ہوتی ہے، البتہ اس حدیث کا آخری حصہ (وَإِنَّ الرَّجُل...)
 انسان اپنے برے عمل کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے کسی معتبر سند سے ثابت نہیں بلکہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ موضوع ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: (الصحيحة، حديث: 154، والضعيفة، حديث: 179)

(2)
نیکی کا ثواب جس طرح آخرت میں بلندی درجات اور ابدی نعمتوں کا باعث ہوتا ہے، اسی طرح نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی نعمت، عزت اور مزید نیکی کی توفیق سے نوازتا ہے، اسی طرح برے عمل کی سزا دنیا اور آخرت دونوں میں ملتی ہے، اِلَّا یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔

(3)
عمر میں اضافے کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔

(ا)
            یعنی عمر میں برکت ہوتی ہے اور وہ اچھے کاموں میں صرف ہوتی اور ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے۔

(ب)
          نیکیوں کی توفیق ملتی ہے جس کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچتا رہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالبـقِيـتُ الصّـلِحـتُ خَيرٌ‌ عِندَ رَ‌بِّكَ ثَوابًا وَخَيرٌ‌ أَمَلًا﴾   (الکھف: 46)
 باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب کے لحاظ سے بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے اچھی ہیں۔

(ج)
          فرشتوں کو یا ملک الموت کو اس کی جو عمر معلوم تھی، اس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
یہ فرشتوں کے لحاظ سے اضافہ ہے، اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم تھا کہ یہ شخص فلاں نیکی کرے گا جس کے انعام کے طور پر اس کی عمر میں اس قدر اضافہ کر دیا جائے گا۔

(4)
          تقدیر بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ جس مصیبت سے انسان ڈرتا ہے، دعا کی برکت سے رک جاتی ہے۔
اور آئی ہوئی مصیبت رفع ہو جاتی ہے۔
جس طرح حضرت یونس علیہ السلام کو دعا کی وجہ سے مچھلی کے پیٹ سے نجات مل گئی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَلَولَا أَنَّهُ كانَ مِنَ المُسَبِّحينَ - لَلَبِثَ فى بَطنِهِ إِلى يَومِ يُبعَثونَ﴾ (الصفت: 143، 144)
 اگر وہ (اللہ کی)
پاکیزگی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہو جاتے، تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس (مچھلی)
کے پیٹ ہی میں رہتے۔
یہاں بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تبدیلی فرشتوں کے علم کے مطابق تبدیلی ہے، اللہ کے علم میں تبدیلی نہیں۔
اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم تھا کہ فلاں شخص دعا کرے گا، پھر اس کی مشکل حل ہو جائے گی۔

(5)
         اس میں دعا کی ترغیب پائی جاتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا بھی جائز اسباب میں سے ہے جسے اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں بلکہ عین توکل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 90