سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم -- رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
15. بَابُ : فَضْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
باب: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
حدیث نمبر: 120
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل الرَّازِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، أَنْبَأَنَا الْعَلَاءُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ الْمِنْهَالِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ، قَالَ عَلِيٌّ: " أَنَا عَبْدُ اللَّهِ، وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ لا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلا كَذَّابٌ، صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ".
عباد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی ہوں، اور میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد اس فضیلت کا دعویٰ جھوٹا شخص ہی کرے گا، میں نے سب لوگوں سے سات برس پہلے نماز پڑھی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10157، ومصباح الزجاجة: 51) (باطل)» ‏‏‏‏ (سند میں عباد بن عبداللہ ضعیف اور متروک ر1وی ہے، اور اس کے بارے میں امام بخاری نے فرمایا: «فيه نظر» اور وہی حدیث کے بطلان کا سبب ہے، امام ذہبی نے فرمایا: یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہے، ملاحظہ ہو: الموضوعات لابن الجوزی: 1/341، وتلخیص المستدرک للذہبی، وتنزیہ الشریعة: 1/386، وشیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ: 310، للدکتور عبد الرحمن الفریوائی)

قال الشيخ الألباني: باطل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث120  
´علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
عباد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی ہوں، اور میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد اس فضیلت کا دعویٰ جھوٹا شخص ہی کرے گا، میں نے سب لوگوں سے سات برس پہلے نماز پڑھی۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 120]
اردو حاشہ:
یہ روایت ضعیف ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
درایتاً بھی غور کیا جائے تو اولاً حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سات سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے والے صرف وہی تھے، جبکہ نزول نبوت سے سات سال تک کا عرصہ تو بہت طویل ہے۔
ابتدائی تین سال کی خاموش تبلیغ کے نتیجہ میں ہی مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت بہت سے حضرات قبول کر چکے تھے اور ثانیاً حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے اللہ تعالیٰ کے صالح، منکسر المزاج بندے یہ فخریہ کلمات کس طرح کہہ سکتے تھے کہ میں ہی صدیق اکبر ہوں۔
اس لحاظ سے یہ روایت واقعی سخت ضعیف اور باطل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 120