سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم -- رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
23. بَابُ : فَضْلِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنَيْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
باب: علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب و فضائل۔
حدیث نمبر: 143
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي عَوْفٍ أَبِي الْحَجَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے حسن و حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13396، ومصباح الزجاجة: 54)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/288، 440، 531) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: محبت ان حضرات کی یہی ہے کہ ان کے احترام کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلا جائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث143  
´علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب و فضائل۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے حسن و حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 143]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے تھے۔
اور نبی علیہ السلام سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کے پیاروں سے بھی پیار ہو۔
اسی وجہ سے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت بھی ایمان کا جز ہے۔
اور ان کے بارے میں دل میں نا مناسب جذبات رکھنا ایمان کے منافی ہے۔

(2)
اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت صرف زبانی دعوے والی چیز نہیں، بلکہ ان کے اسوہ پر عمل کرنا اصل محبت ہے۔

(3)
کسی بھی صحابی سے سرزدہونے والی اجتہادی غلطیوں کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف باتیں کرنا یا ان کی معمولی لغزشوں کو بڑے جرائم باور کرانے کی کوشش کرنا درست نہیں۔
جس طرح بعض لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر عائد کیے گئے غلط الزامات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے مفسدین کا موقف درست ثابت کرنا چاہا ہے۔
اس کے برعکس بعض دوسرے لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
خوارج نے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں کو کافر قرار دیا، یہ سب غلط ہیں۔
صحابہ کرام کا اختلاف اجتہادی اختلاف تھا جس میں غلطی پر بھی ثواب ہے۔
اس موضؤع پر ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب (العواصم من القواصم)
کا مطالعہ مفید ہے۔
اردو میں (خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت۔) (مصنف حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ)
کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 143