سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم -- رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
27. بَابُ : فَضَائِلِ خَبَّابٍ
باب: خباب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
حدیث نمبر: 153
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ أَبِي لَيْلَى الْكِنْدِيِّ ، قَالَ: جَاءَ خَبَّابٌ إِلَى عُمَرَ ، فَقَالَ:" ادْنُ فَمَا أَحَدٌ أَحَقَّ بِهَذَا الْمَجْلِسِ مِنْكَ إِلَّا عَمَّارٌ، فَجَعَلَ خَبَّابٌ يُرِيهِ آثَارًا بِظَهْرِهِ مِمَّا عَذَّبَهُ الْمُشْرِكُونَ 2".
ابولیلیٰ کندی کہتے ہیں کہ خباب رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے قریب بیٹھو، تم سے بڑھ کر میرے قریب بیٹھنے کا کوئی مستحق نہیں سوائے عمار رضی اللہ عنہ کے، پھر خباب رضی اللہ عنہ اپنی پیٹھ پر مشرکین کی مار پیٹ کے نشانات ان کو دکھانے لگے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3523، ومصباح الزجاجة: 58) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اصحاب فضل و کمال کو مجلس میں ممتاز مقام پر رکھنا چاہیے، عمر رضی اللہ عنہ افاضل صحابہ کو اپنے پاس جگہ دیتے تھے، عمار رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ کی راہ میں بہت تکلیفیں اٹھائی تھیں اس لئے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بھی یاد کیا، اور معلوم ہوا کہ کسی کی تعریف اس کے سامنے اگر اس سے خود پسندی اور عجب کا ڈر نہ ہو تو جائز ہے، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار اس اعتبار سے جائز ہے کہ وہ اللہ کی نعمتیں ہیں، جیسے خباب رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم کے نشان دکھائے کہ جو ایک نعمت الٰہی تھی، اور جو اللہ کے نزدیک بلندی درجات کا سبب ہوئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث153  
´خباب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
ابولیلیٰ کندی کہتے ہیں کہ خباب رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے قریب بیٹھو، تم سے بڑھ کر میرے قریب بیٹھنے کا کوئی مستحق نہیں سوائے عمار رضی اللہ عنہ کے، پھر خباب رضی اللہ عنہ اپنی پیٹھ پر مشرکین کی مار پیٹ کے نشانات ان کو دکھانے لگے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 153]
اردو حاشہ:
(1)
یہ روایت بعض ائمہ کے نزدیک صحیح ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ آپس میں ایک دوسرے سے محبت اور ہمدردی کرنے والے تھے۔

(2)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو اپنے قریب بٹھایا، اس سے ان کی عزت افزائی بھی مقصود تھی اور اظہار محبت بھی۔

(3)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر میں حضرت عمار، حضرت خباب اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جنہوں نے اللہ کی راہ میں تکلیفیں برداشت کی تھیں، بہت زیادہ قابل قدر اور قابل احترام تھے۔

(4)
جو لوگ دین کے لیے محنت کریں اور تکلیفیں برداشت کریں، مسلمان حکومتوں یا جماعتوں کے قائدین کو چاہیے کہ ان کو کما حقہ مقام اور عزت و شرف سے نوازیں۔

(5)
حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخموں کے نشانات دکھانا ریاکاری میں شامل نہیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان تمام شدائد کے عینی گواہ تھے جو سابق الاسلام صحابہ کرام کو مشرکین کے ہاتھوں برداشت کرنے پڑے تھے بلکہ (بطور تحدیث نعمت)
مقصد اللہ کے احسانات کو یاد کرنا تھا کہ اس نے ان ایام میں استقامت بخشی اور بعد میں اسلام کو غلبہ عطا فرمایا اور ان مصائب سے نجات بخشی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 153