سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة) -- (ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
34. بَابٌ في ذِكْرِ الْخَوَارِجِ
باب: خوارج کا بیان۔
حدیث نمبر: 175
حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَخْرُجُ قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ، أَوْ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ أَوْ حُلْقُومَهُمْ، سِيمَاهُمُ التَّحْلِيقُ إِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ، أَوْ إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ (خلافت راشدہ کے اخیر) میں یا اس امت میں سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو قرآن پڑھے گی لیکن وہ ان کے نرخرے یا حلق سے نیچے نہ اترے گا، ان کی نشانی سر منڈانا ہے، جب تم انہیں دیکھو یا ان سے ملو تو انہیں قتل کر دو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/السنة 31 (4766)، (تحفة الأشراف: 1337)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/197) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نشان سر منڈانا ہے، اور اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ بال منڈانا مکروہ ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، بعض اوقات سر منڈانا عبادت ہے، جیسا کہ حج اور عمرہ میں، اور پیدائش کے ساتویں روز بچے کا سر منڈانا سنت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث175  
´خوارج کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ (خلافت راشدہ کے اخیر) میں یا اس امت میں سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو قرآن پڑھے گی لیکن وہ ان کے نرخرے یا حلق سے نیچے نہ اترے گا، ان کی نشانی سر منڈانا ہے، جب تم انہیں دیکھو یا ان سے ملو تو انہیں قتل کر دو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 175]
اردو حاشہ:
(1)
اس روایت کی تحقیق کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے، البتہ صحیح بخاری کی حدیث (7562)
اس سے کفایت کرتی ہے، علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا معلوم ہوا یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل حجت ہے۔

(2)
سر کا منڈانا، خارجیوں کی علامت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جو بھی سر منڈائے وہ خارجی ہے بلکہ صرف یہ مطلب ہے کہ ان میں یہ عادت پائی جائے گی، ورنہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمیشہ سر منڈاتے تھے جبکہ خارجی ان کے سخت دشمن تھے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے سکھوں کی علامات بیان کرتے ہوئے ان کی ایک علامت داڑھی رکھنا بیان کی جائے، تو لوگ ہر پوری داڑھی رکھنے والے کو سکھ کہنا شروع کر دیں۔
ظاہر بات ہے ایسا کہنا یا سمجھنا سوائے جہالت کے کچھ نہیں۔
اسی طرح بعض اہل بدعت، اہلحدیث کو سنت کے مطابق لمبی نماز پڑھنے، ذوق و شوق سے تلاوت کرنے اور فیشنی بال رکھنےکی بجائے سر کے بال منڈانے پر، انہیں خوارج باور کراتے ہیں، جو حقائق کے یکسر خلاف ہے، جہالت کا مظاہرہ بھی ہے اور سنت پر اور صحیح اسلام پر عمل کرنے کی اہمیت و فضیلت سے انکار بھی۔
أعاذنالله منها.
(3)
انہیں قتل کر دو اس کا مطلب ہے ان سے جنگ کرو تاکہ ان کا فتنہ ختم ہو جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 175