سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة) -- (ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
35. بَابُ : فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
حدیث نمبر: 192
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُول: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَيَطْوِي السَّمَاءَ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ؟".
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: اصل بادشاہ میں ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الزمر 3 (4812)، التوحید 6 (7382)، صحیح مسلم/صفة القیامة 1 (2787)، (تحفة الأشراف: 13322)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2 /374)، سنن الدارمی/الرقاق 80 (2841) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لئے «ید» و «قبض» و «طی» کا اثبات ہوتا ہے، اہل سنت اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں جو قبض و بسط و انفاق جیسی صفات رکھتے ہیں، اس کے دونوں ہاتھ «یمین» ہیں، اور اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے اس کی شان کے لائق ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث192  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: اصل بادشاہ میں ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 192]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے اللہ تعالی کے ہاتھ کا ثبوت ملتا ہے، تاہم اللہ کی ان صفات کے بارے میں اپنے ذہن سے کوئی تصور تراش لینا درست نہیں، جتنی بات بتائی گئی اس پر ایمان لانا اور اللہ کی صفات کو مخلوق سے تشبیہ نہ دینا ضروری ہے۔

(2)
موجودہ آسمان قیامت کے دن ختم ہو جائیں گے۔
قرآن مجید میں اس کے لیے لپیٹنے کا لفظ آیا ہے:
﴿وَالسَّمـٰوٰتُ مَطوِيّٰـتٌ بِيَمينِهِ﴾ (الزمر: 67)
اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں، لپٹے ہوئے ہوں گے۔
اور پھٹ جانے کا ذکر بھی ہے:
(إِذَا السَّماءُ انشَقَّت) (الانشقاق: 1)
جب آسمان پھٹ جائے گا۔

(3)
دنیا کا اقتدار اور بادشاہی ایک امتحان اور آزمائش ہے، اصل بادشاہی اللہ ہی کی ہے۔
ارشاد ہے:
﴿قُلِ اللَّهُمَّ مـلِكَ المُلكِ تُؤتِى المُلكَ مَن تَشاءُ وَتَنزِعُ المُلكَ مِمَّن تَشاءُ﴾  (آل عمران: 26)
 کہہ دیجئے، اے اللہ! اے بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہتا ہے بادشاہی دے دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہی چھین لیتا ہے۔
 قیامت کو یہ حقیقت بالکل واضح ہو کر سامنے آ جائے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 192