سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة) -- (ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
35. بَابُ : فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
حدیث نمبر: 194
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا قَضَى اللَّهُ أَمْرًا فِي السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ أَجْنِحَتَهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ سورة سبأ آية 23 قَالَ: فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ بَعْضُهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ، فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ فَرُبَّمَا أَدْرَكَهُ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا إِلَى الَّذِي تَحْتَهُ، فَيُلْقِيهَا عَلَى لِسَانِ الْكَاهِنِ أَوِ السَّاحِرِ، فَرُبَّمَا لَمْ يُدْرَكْ حَتَّى يُلْقِيَهَا، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَتَصْدُقُ تِلْكَ الْكَلِمَةُ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کی تابعداری میں بطور عاجزی اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، جس کی آواز کی کیفیت چکنے پتھر پر زنجیر مارنے کی سی ہوتی ہے، پس جب ان کے دلوں سے خوف دور کر دیا جاتا ہے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواب دیتے ہیں: اس نے حق فرمایا، اور وہ بلند ذات والا اور بڑائی والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوری سے باتیں سننے والے (شیاطین) جو اوپر تلے رہتے ہیں اس کو سنتے ہیں، اوپر والا کوئی ایک بات سن لیتا ہے تو وہ اپنے نیچے والے کو پہنچا دیتا ہے، بسا اوقات اس کو شعلہ اس سے پہلے ہی پا لیتا ہے کہ وہ اپنے نیچے والے تک پہنچائے، اور وہ کاہن (نجومی) یا ساحر (جادوگر) کی زبان پر ڈال دے، اور بسا اوقات وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا یہاں تک کہ وہ نیچے والے تک پہنچا دیتا ہے، پھر وہ اس میں سو جھوٹ ملاتا ہے تو وہی ایک بات سچ ہوتی ہے جو آسمان سے سنی گئی تھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الحجر 1 (4800) التوحید 32 (7481)، سنن ابی داود/الحروف والقراء ات 1 (3989)، سنن الترمذی/التفسیر 35 (3223)، (تحفة الأشراف: 14249) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے بھی واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ بلندی پر ہے، اس کے احکام اوپر ہی سے نازل ہوتے ہیں، پس احکم الحاکمین اوپر ہی ہے، اور نیچے والے فرشتے اوپر کے درجہ والوں سے پوچھتے ہیں: کیا حکم ہوا؟ وہ ان کو جواب دیتے ہیں کہ جو حکم اللہ تعالیٰ کا ہے وہ حق ہے، اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی بڑی عظمت اور ہیبت واضح ہوتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے باوجود قرب، نورانیت اور معصومیت کے اس قدر اللہ تعالیٰ سے لرزاں و ترساں ہیں تو ہم کو بدرجہا اس سے زیادہ ڈرنا چاہئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث194  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کی تابعداری میں بطور عاجزی اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، جس کی آواز کی کیفیت چکنے پتھر پر زنجیر مارنے کی سی ہوتی ہے، پس جب ان کے دلوں سے خوف دور کر دیا جاتا ہے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواب دیتے ہیں: اس نے حق فرمایا، اور وہ بلند ذات والا اور بڑائی والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوری سے باتیں سننے والے (شیاطین) جو اوپر تلے رہتے ہیں اس کو سنتے ہیں، اوپر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 194]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ تعالیٰ کا کلام آواز و الفاظ سے ہوتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں۔

(2)
فرشتے اللہ کی عظمت و کبرائی کا شعور رکھتے ہیں، اس لیے وہ اللہ کا کلام سن کر فروتنی کا اظہار کرتے ہیں۔
لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکام سن کر زیادہ لرزاں و ترساں رہنا چاہیے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے زیادہ مرتبہ ومقام عطا کیا ہے۔

(3)
اوپر والے جِن نیچے والوں جنوں کو وہ بات بتاتے ہیں جو انہوں نے اپنے اوپر موجود فرشتوں سے سنی ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام اوپر سے نازل ہوتا ہے۔
اس سے اللہ تعالٰی کا علو اور اوپر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی کا اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہونے کا تصور درست نہیں، البتہ اپنے علم کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے، یعنی ہر چیز سے وہ باخبر ہے۔

(4)
جنوں کو بھگانے کے لیے شعلے مارے جاتے ہیں، یہ شعلے جنوں کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔

(5)
کاہنوں اور نجومیوں کا تعلق شیاطین سے ہوتا ہے اس لیے علم نجوم، جوتش وغیرہ سب شیطانی علوم ہیں۔
مسلمانوں کو ان پر یقین نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی چیزوں کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(6)
کاہنوں اور نجومیوں کی باتیں اکثر غلط اور جھوٹ ہوتی ہیں، کبھی کوئی بات صحیح نکل آتی ہے اور وہ بھی وہ بات ہے جو کسی شیطان نے کسی فرشتے سے سن کر نجومی کو بتا دی ہوتی ہے، اس لیے ان پر اعتماد کرنا درست نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو کسی نجومی (یا رَمَّال)
کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحيح مسلم، السلام، باب تحريم الكهانة واتيان الكهان، حديث: 2230)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3223  
´سورۃ سبا سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ آسمان پر کسی معاملے کا حکم و فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے عجز و انکساری کے ساتھ (حکم برداری کے جذبہ سے) اپنے پر ہلاتے ہیں۔ ان کے پر ہلانے سے پھڑپھڑانے کی ایسی آواز پیدا ہوتی ہے تو ان زنجیر پتھر پر گھسٹ رہی ہے، پھر جب ان کے دلوں کی گھبراہٹ جاتی رہتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: حق بات کہی ہے۔ وہی بلند و بالا ہے، آپ نے فرمایا: شیاطین (زمین سے آسمان تک) یکے بعد دیگرے (اللہ کے احکام اور فیصلوں کو اچک کر ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3223]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ ارشاد باری تعالیٰ ﴿وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ (سبأ: 23) کی طرف اشارہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3223   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3989  
´باب:۔۔۔`
اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی حدیث ۱؎ روایت کی اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے قول «حتى إذا فزع عن قلوبهم» یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے (سورۃ سبا: ۲۳) ۲؎ سے یہی مراد ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 3989]
فوائد ومسائل:
لفظ (فزع) ف کے ضمہ زا مشدد کے کسرہ کےساتھ ہے۔
جبکہ ایک قراءت میں مروی ہے۔
(یعنی ر غیر منقوط اور غ منقوط کےساتھ۔
)
ابن عامر اور یعقوب کی قراءت میں (زمنقوط کےساتھ) (عربی میں لکھا ہے) بصیغہ ماضی آیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3989