سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة) -- (ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
45. بَابُ : الاِنْتِفَاعِ بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ بِهِ
باب: علم سے نفع اٹھانے اور اس پر عمل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 259
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَاصِمٍ الْعَبَّادَانِيُّ ، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ مَيْمُونٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَشْعَثَ بْنَ سَوَّارٍ ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِتُبَاهُوا بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِتُمَارُوا بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ لِتَصْرِفُوا وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْكُمْ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَهُوَ فِي النَّارِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تم علم کو علماء پر فخر کرنے یا کم عقلوں سے بحث و تکرار کرنے یا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے نہ سیکھو، جس نے ایسا کیا اس کا ٹھکانا جہنم میں ہو گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3382، ومصباح الزجاجة: 106) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں ''بشیر بن میمون'' متروک ومتہم اور ''اشعث بن سوار'' دونوں ضعیف ہیں، اس لئے یہ سند سخت ضعیف ہے، لیکن شواہد ومتابعات کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: تخريج اقتضاء العلم، للخطیب البغدادی: 100- 102، وصحيح الترغيب: 106-110)

قال الشيخ الألباني: حسن
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 225  
´ریاکار عالم دین کا انجام`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ يصرف بِهِ وُجُوه النَّاس إِلَيْهِ أَدخل الله النَّار» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس غرض سے علم حاصل کرتا ہے کہ وہ علماء پر فخر کرے یا نادانوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کا چہرہ اپنی طرف پھیرے۔ یعنی اپنی طرف متوجہ کر لے یعنی دینی کی اشاعت کے واسطے علم حاصل نہیں کیا بلکہ دنیا طلبی یا عزت یابی یا لوگوں پر شیخی بگھاڑنے اور لوگوں کو مسخر کرنے کے لئے حاصل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں ڈال دے گا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 225]

تحقیق الحدیث:
یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔
◄ سنن ترمذی والی روایت میں اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ بن عبیداللہ القرشی التیمی ضعیف ہے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب: 39۔]
◄ امام ترمذی نے اسی مقام پر فرمایا:
یہ حدیث غریب ہے۔۔۔ اور اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ ان (محدثین) کے نزدیک القوی نہیں ہے، اس کے حافظے کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔ [جامع ترمذي ص598 بتحقيق الالباني]
اُس پر امام احمد بن حنبل وغیرہ نے شدید جرح کی ہے۔
◄ سنن ابن ماجہ [253] والی روایت میں حماد بن عبدالرحمٰن ضعیف [تقريب التهذيب: 1502] اور ابوکرب الازدی مجہول ہے۔ [تقريب التهذيب: 8326]
◄ سنن ابن ماجہ [254] وغیرہ میں «ابن جريح عن ابي الزبير عن جابر بن عبدالله رضي الله عنه» کی سند سے آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تعملوا العلم لتباهوا به العلماء ولا لتماروا به السفهاء ولا تخيروا به المجالس فمن فعل ذلك فالنار النار.»
اس کی سند ابن جریح اور ابوالزبیر دو مدلسوں کے عن عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔
◄ سنن ابن ماجہ میں ہی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تعلموا العلم لتباهوا به العلماء أو لتماروا به السفهاء أو لتصرفوا وجوه الناس إليكم فمن فعل ذلك فهو فى النار.» [ح259]
اس روایت کی سند میں بشیر بن میمون: متروك متهم [تقريب التهذيب: 259]
اور اشعث بن سوار ضعيف هے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب: 524]
◄ سنن ابن ماجہ کی ایک اور روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من تعلم العلم ليباهي به العلماء ويجاري به السفهاء ويصرف به وجوه الناس إليه أدخله الله جهنم.» [ح260]
اس کی سند میں عبداللہ بن سعید بن ابی سعید المقبری: متروک ہے۔ [تقريب التهذيب: 3356]
↰ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف روایات کو جمع کر کے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، حالانکہ یہ حسن نہیں بنتی بلکہ ضعیف ہی ہے۔

فائدہ:
آنے والی حدیث [اضواء المصابيح: 227، ابوداود: 3664، ابن ماجه: 252] اس ضعیف روایت سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ «والحمد لله»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 225