صحيح البخاري
كِتَاب جَزَاءِ الصَّيْدِ -- کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
24. بَابُ حَجِّ الْمَرْأَةِ عَنِ الرَّجُلِ:
باب: عورت کا مرد کی طرف سے حج کرنا۔
حدیث نمبر: 1855
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، فَقَالَتْ:" إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب زہری نے، ان سے سلیمان بن یسار نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی۔ فضل رضی اللہ عنہ اس کو دیکھنے لگے اور وہ فضل رضی اللہ عنہ کو دیکھنے لگی۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے، اس عورت نے کہا کہ اللہ کا فریضہ (حج) نے میرے بوڑھے والد کو اس حالت میں پا لیا ہے کہ وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں، آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 337  
´حج بدل کا بیان`
«. . . يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن فريضة الله على العباد فى الحج ادركت ابى شيخا كبيرا لا يستيطع ان يثبت على الراحلة افاحج عنه. قال: نعم . . .»
. . . یا رسول اﷲ! اﷲ تعالی نے بندوں پر اس وقت حج فرض کیا جب میرے والد صاحب بہت بوڑھے ہو گئے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں! . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 337]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1513، ومسلم 1334، من حديث ما لك به]

تفقہ:
➊ اس پر جمہور علماء کا اجماع ہے کہ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے حج کر سکتے ہیں، صرف حسن بن صالح اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ [الاجماع لابن المنذر: 210، حاجي كے شب وروز ص 90]
➋ اس حدیث سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ بحالت احرام عورت کے لئے غیر مردوں سے اپنا چہرہ چھپانا فرض و واجب نہیں ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ غیر مردوں سے عورت اپنا چہرہ بھی چھپائے۔ فاطمہ بنت المنذ رحمہا الله فرماتی ہیں کہ ہم حالت احرام میں غیر مردوں سے اپنے چہرے چھپا لیتی تھیں اور ہمارے ساتھ ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہا ہوتی تھیں۔ [الموطأ، رواية يحييٰ 328/1 ح 734، وسنده صحيح]
➌ اگر سواری میں بوجھ اٹھانے کی طاقت ہو تو اس پر دو آدمی (یا زیاده) سوار ہو سکتے ہیں۔
➍ اس پر اجماع ہے کہ جو بالغ شخص حج والے دن، حج کی نیت سے عرفات پہنچ جائے اور حج کر لے تو اس کی طرف سے فریضہ حج ادا ہو جاتا ہے، چاہے یہ شخص اس وقت غریب فقیر تھا یا کسی بھی وجہ سے مکہ پہنچ گیا تھا۔
➎ میت کی طرف سے صرف وہی حج کر سکتا ہے جس نے پہلے بذات خود فریضہ حج ادا کر رکھا ہو جیسا کہ شبرمہ والی حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير للطبراني 226/1 وسنده حسن]
➏ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہئے کیونکہ انسان جتنا بھی نیک ہو، اس سے خطا اور لغزش کا صدور ممکن ہے۔
➐ اصحاب اقتدار کے لئے ضروری ہے کہ نیکی کا حکم دیں اور برائیوں سے منع کریں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 58   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2132  
´جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ نذر ہو تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کے ذمہ ایک نذر تھی وہ مر گئیں، اور اس کو ادا نہ کر سکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کی جانب سے اسے پوری کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2132]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  نذر پوری کرنا واجب ہے۔

(2)
  اگر کوئی فوت ہو جائے اور نذر پوری نہ کی ہو تو مالی نذر اس کے مال سے پوری کر لی جائے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے پھر ترکہ تقسیم کیا جائے۔

(3)
  بدنی نذر اس کے قریبی وارث کو پوری کرنی چاہیے۔

(4)
  اولاد کا حق زیادہ ہے کہ وہ والدین کی نذر پوری کریں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2132   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 584  
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی تو فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، فضل رضی اللہ عنہ کا منہ دوسری جانب پھیرتے تھے۔ پس اس عورت نے کہا، اے اللہ کے رسول! بیشک حج، اللہ کا فرض ہے اس کے بندوں پر۔ میرا باپ بڑی عمر والا بوڑھا ہے۔ وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 584]
584 لغوی تشریح:
«رَدِيف» ایک سواری پر دو بیٹھنے والوں سے پیچھے والے کو «رديف» کہتے ہیں۔
«خَثْعَمَ» خا پر زبر ثا ساکن اور عین پر زبر ہے۔ یمن کے مشہور قبیلے کا نام ہے۔ اسے منصرف اور غیر منصرف دونوں طرح پڑھنا ہے۔
«الشِّقٌ» یعنی جانب۔ آپ نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ اس لیے پھیر دیا کہ کہیں شیطان انہیں فتنے میں مبتلا نہ کر دے۔
«حَجَّةِ الْوَدَاعِ» یہ وہ حج ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہجری میں کیا اور اس کے تین ماہ بعد آپ وفات پاگئے۔ الوداع کے واو پر زبر ہے۔ اور یہ «وَدَّعَ» «توديعا» کا مصدر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ واو کے نیچے کسرہ ہے۔ یوں یہ «وَادَعَ» «موادعة» کا مصدر ہے۔ آخری حج کا نام حجتہ الوداع اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ نے اس سال لوگوں کو یا حرم کعبہ کو رخصت اور الوداع کیا۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ زندہ آدمی اگر معذور ہو اور اس کی صحت کی امید نہ ہو تو اس کی جانب سے حج بدل جائز ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس پر حج فرض ہو مگر وہ کسی مستقل بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے حج کرنے کی طاقت نہ پاتا ہو تو اس کی طرف سے حج بدل جائز ہے۔ لیکن عارضی بیماری (جس کے دور ہو جانے کا امکان ہو) میں نیابت درست نہیں۔ یہ شرط فرض حج کے لیے ہے، نفلی حج کے لیے اس میں شرط نیابت جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ اور حج بدل کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس کا قریبی ہی نائب بنے۔

وضاحت:
حضرت فضل بن عباس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام ام فضل لبابۃ الکبریٰ بنت الحارث الھلالیۃ تھا۔ نہایت حسین و جمیل تھے۔ معرکہ حنین میں آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے میں شریک تھے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑے یہی تھے۔ جہاد کے لیے شام تشریف لے گئے، کہا جاتا ہے ہے کہ طاعون عمواس کے سال اردن کے قریب 18 ہجری میں انتقال ہوا۔ بعض نے کہا ہے کہ یرموک کے دن شہید ہوئے اور بعض نے کہا کہ دمشق میں وفات پائی جبکہ ان کے جسم پر نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چادر تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 584   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1546  
´میت کی طرف سے نذر پوری کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے جو ان کی ماں پر واجب تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے وہ مر گئیں، فتویٰ پوچھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی طرف سے نذر تم پوری کرو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1546]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میت کے واجب حقوق کو پورا کرنا اس کے وارثوں کے ذمہ واجب ہے،
اس کے لیے میت کی طرف سے اسے پوری کرنے کی وصیت ضروری نہیں،
ورثاء کو اپنی ذمہ داری کا خود احساس ہونا چاہئے،
اور ورثاء میں سے اسے پورا کرنے کی زیادہ ذمہ داری اولاد پر ہے،
اگر نذر کا تعلق مال سے ہے تو اسے پوری کرنا مستحب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1809  
´حج بدل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ کے پاس فتویٰ پوچھنے آئی تو فضل اسے دیکھنے لگے اور وہ فضل کو دیکھنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا منہ اس عورت کی طرف سے دوسری طرف پھیرنے لگے ۱؎، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر (عائد کردہ) فریضہ حج نے میرے والد کو اس حالت میں پایا ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں، اونٹ پر نہیں بیٹھ سکتے کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1809]
1809. اردو حاشیہ:
➊ جہاں کہیں کوئی خلاف شریعت عم ل(منکر) نظر آئے تو مسلمان کو چاہیے کہ بالفعل اس کو روکنے کی کوشش کرے جیسے رسول اللہﷺ نے حضرت فضل کا چہرہ پھیر کر انہیں غلط نظر سے منع فرمایا۔
➋ جب کوئی شخص کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوکہ شفا یابی بظاہر مشکل معلوم ہو تو اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص حج بدل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر شفایابی کی امید ہوتو انتظار کیا جائے۔
➌ جب کوئی شخص از خود کسی کی طرف سے نائب بن جائے تو اس پر تکمیل حج لازم ہے۔
➍ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت بوقت ضرورت غیر محرم مردوں کےساتھں بات چیت کر سکتی ہے۔
➎ یہ حدیث «غض بصر» نگاہ نیچی رکھنے کے وجوب اور اجنبی عورت کی طرف دیکھنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔
➏ عورت اپنے باپ کی طرف سے حج بدل کر سکتی ہے۔بشرطیکہ پہلے وہ اپناحج کر چکی ہو۔
➐ ایک سواری پر دو آدمی بھی سوار ہو سکتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1809   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1855  
1855. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت فضل بن عباس ؓ نبی ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی۔ حضرت فضل ؓ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی تو نبی ﷺ نے حضرت فضل ؓ کا چہرہ دوسری طرف پھیردیا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ اللہ کی طرف سے فریضہ حج نے میرے باپ کوبایں حالت پایا۔ کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور سواری پر نہیں ٹھہرسکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟آپ نے فرمایا: ہاں اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1855]
حدیث حاشیہ:
اس عورت کا نام معلوم نہیں ہوا اس حدیث سے یہ نکلا کہ زندہ آدمی کی طرف سے بھی اگر وہ معذور ہو جائے دوسرا آدمی حج کرسکتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ایسا حج بدل مرد کی طرف سے عورت بھی کرسکتی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنَ الْفَوَائِدِ جَوَازُ الْحَجِّ عَنِ الْغَيْرِ وَاسْتدلَّ الْكُوفِيُّونَ بِعُمُومِهِ على جَوَاز صِحَة حج مَنْ لَمْ يَحُجَّ نِيَابَةً عَنْ غَيْرِهِ وَخَالَفَهُمُ الْجُمْهُورُ فَخَصُّوهُ بِمَنْ حَجَّ عَنْ نَفْسِهِ وَاسْتَدَلُّوا بِمَا فِي السّنَن وصحيح بن خُزَيْمَة وَغَيره من حَدِيث بن عَبَّاسٍ أَيْضًا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يُلَبِّي عَنْ شُبْرُمَةَ فَقَالَ أَحَجَجْتَ عَنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَا قَالَ هَذِهِ عَنْ نَفْسِكَ ثُمَّ احْجُجْ عَنْ شُبْرُمَةَ الخ۔
(فتح الباري)
یعنی اس حدیث کے فوائد میں سے ہے کہ غیر کی طرف سے حج کرنا جائز ہے اور کوفیوں نے اس کے عموم سے دلیل لی ہے کہ نیابت میں اس کا حج بھی درست ہے جس نے پہلے اپنا حج نہ کیا ہو اورجمہور نے ان کے خلاف کہا ہے انہوں نے اس کے لیے اسی کو خاص کیا ہے جو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہو اور انہوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جسے اصحاب سنن اور ابن خزیمہ وغیرہم نے حدیث ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار رہا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا شبرمہ کون ہے اس نے اس کو بتلایا، پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہے، اس نے نفی میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا پہلے اپنا حج کر پھر شبرمہ کا حج کرنا۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل جس سے کرایا جائے ضروری ہے کہ وہ شخص پہلے اپنا حج کرچکا ہو حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وَفِيهِ أَنَّ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ حَجٌّ وَجَبَ عَلَى وَلِيِّهِ أَنْ يُجَهِّزَ مَنْ يَحُجُّ عَنْهُ مِنْ رَأْسِ مَالِهِ كَمَا أَنَّ عَلَيْهِ قَضَاءَ دُيُونِهِ فَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ دَيْنَ الْآدَمِيِّ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ فَكَذَلِكَ مَا شُبِّهَ بِهِ فِي الْقَضَاءِ وَيَلْتَحِقُ بِالْحَجِّ كُلُّ حَقٍّ ثَبَتَ فِي ذِمَّتِهِ مِنْ كَفَّارَةٍ أَوْ نَذْرٍ أَوْ زَكَاةٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ الخ (فتح الباري)
یعنی اس میں یہ بھی ہے کہ جو شخص وفات پائے اور اس پر حج واجب ہو تو وارثوں کا فرض ہے کہ اس کے اصل مال سے کسی دوسرے کو حج بدل کے لیے تیار کرکے بھیجیں۔
یہ ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ اس کے قرض کی ادائیگی ضروری ہے اور کفارہ اور نذر اور زکوۃ وغیرہ کی جواس کے ذمہ واجب ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1855   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1855  
1855. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت فضل بن عباس ؓ نبی ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی۔ حضرت فضل ؓ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی تو نبی ﷺ نے حضرت فضل ؓ کا چہرہ دوسری طرف پھیردیا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ اللہ کی طرف سے فریضہ حج نے میرے باپ کوبایں حالت پایا۔ کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور سواری پر نہیں ٹھہرسکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟آپ نے فرمایا: ہاں اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1855]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے۔
کسی روایت میں ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا، اس نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا۔
کسی میں ہے کہ عورت نے سوال کیا۔
کسی روایت میں اپنی ماں کے متعلق سوال کرنا مروی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں سائل آدمی تھا اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی۔
اس نے بھی سوال کیا اور جس کے متعلق سوال کیا گیا وہ باپ اور ماں دونوں تھے۔
اس کی تائید ایک روایت سے ہوتی ہے جس میں حضرت فضل بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں:
میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دیہاتی آیا تو اس کے پیچھے اس کی خوبرو بیٹی سوار تھی۔
میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔
۔
(مسندأحمد: 211/1)
اس روایت کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ پہلے لڑکی نے اپنے دادا کے متعلق سوال کیا ہو اور اسے لفظ "أبي" سے تعبیر کیا ہو کیونکہ دادا کے لیے باپ کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔
پھر اس کے باپ نے خود اپنے والد کے متعلق سوال کیا ہو۔
ممکن ہے کہ اپنی ماں کے متعلق بھی اس نے سوال کیا ہو۔
(فتح الباري: 89/4)
شیخ البانی ؒ نے ان روایات کو شاذ قرار دیا ہے جن میں یہ ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا۔
(2)
واضح رہے کہ عورت، مرد کی طرف سے حج کر سکتی ہے لیکن چند ایک وجوہ سے عورت کا حج منفرد ہوتا ہے:
٭ عورت سلا ہوا کپڑا پہن سکتی ہے۔
٭ موزے پہن سکتی ہے۔
٭ اپنا سر چھپا سکتی ہے۔
٭ تلبیہ کے لیے اونچی آواز نہیں کر سکتی۔
٭ طواف میں رمل نہیں کر سکتی۔
٭ اضطباع بھی نہیں کر سکتی۔
٭ طواف صدر کے ترک پر اس پر دم لازم نہیں۔
٭ حیض کی وجہ سے طواف زیارت مؤخر کر سکتی ہے اور اس صورت میں اس پر کوئی دم لازم نہیں آتا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1855