سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها -- کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
13. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْبَوْلِ قَائِمًا
باب: کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 305
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، وَهُشَيْمٌ ، وَوَكِيعٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَتَى سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ عَلَيْهَا قَائِمًا".
حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے کوڑا خانہ پر آئے، اور اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 61 (224)، 62 (225)، والمظالم 27 (2471)، صحیح مسلم/الطہارة 22 (273)، سنن ابی داود/الطہارة 9 (23)، سنن الترمذی/الطہارة 19 (13)، سنن النسائی/الطہارة 17 (18)، (تحفة الأشراف: 3335)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/394)، سنن الدارمی/ الطہارة 9 (695) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 26  
´صحرا (میدان) میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی رخصت۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے کوڑا خانہ پر آئے تو کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 26]
26۔ اردو حاشیہ:
① مذکورہ روایت اور اس کی تفہیہم پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے، سنن نسائي حدیث: 18 یہاں دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔
´قضائے حاجت کے لیے دور نہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ لوگوں کے ایک کوڑے خانہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎، میں آپ سے دور ہٹ گیا، تو آپ نے مجھے بلایا ۲؎، (تو جا کر) میں آپ کی دونوں ایڑیوں کے پاس (کھڑا) ہو گیا یہاں تک کہ آپ (پیشاب سے) فارغ ہو گئے، پھر آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 18]

18۔ اردو حاشیہ:
➊ سنن نسائي حدیث ۱۸ کی یہ روایت مختصر ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا امکان ہے، اس لیے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے کے ڈھیر پر پیشاب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حسب معمول آپ سے دور ہونے لگے، لیکن چونکہ آپ کو صرف پیشاب کی حاجت تھی جس میں آواز یا بدبو کا امکان نہ تھا (خصوصاً قیام کی حالت میں) اس لیے آپ نے انہیں کہا: اے حذیفہ! مجھے اوٹ کرو۔ وہ آپ سے قریب پچھلی طرف دوسری جانب منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ (ایڑیوں کے قریب سے مراد مطلق قرب ہے نہ کہ حقیقتاً ایڑیوں سے ایڑیاں ملا کر۔) اس طرح آپ کی طرف نظر کا امکان نہ رہا اور پورا پردہ ہو گیا۔
➋ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کی تھی مگر مذکورہ واقعہ میں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ اس کی مختلف عقلی و نقلی توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: ڈھیر کی گندگی سے بچنے کے لیے کیونکہ ڈھیر پر بیٹھنے کی صورت میں کپڑوں یا جسم کو گندگی لگ سکتی تھی یا اس لیے کہ پیشاب کی دھار دور گرے۔ بیٹھنے کی صورت میں پیشاب قریب گرتا اور واپس پاؤں کی طرف آتا، نیز چھینٹے بھی پڑتے یا گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا جیسا کہ بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے۔ [السنن الکبریٰ، للبیھقی: 101/1]
یا کمر درد کے علاج کے لیے جیسا کہ اطباء کا خیال تھا۔ بہرحال مذکورہ توجیہات کی روشنی میں عمومی رائے یہی ہے کہ آپ کے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ان میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی، لیکن تحقیق یہ ہے کہ ان مذکورہ وجوہ میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایک وجہ بھی بسند صحیح ثابت نہیں، اس لیے اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب صرف بیان جواز کے لیے کیا ہے جبکہ آپ کی عام عادت بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، اطھارۃ، حدیث: 274، مع شرح النووي]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں، «وإلا ظھر أنه فعل ذلک لبیان الجواز……» زیادہ واضح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل صرف بیان جواز کے لیے تھا…… [فتح الباري: 430/1، طبع دارالسلام]
نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں منقول توجیہات کو گویا قابل حجت نہیں سمجھا، بہرحال اگر کوئی شخص ضرورت کے پیش نظر یا کبھی کبھار بلا ضرورت ہی جواز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھڑے ہو کر سنت پر عمل کی خاطر پیشاب کر لیتا ہے تو ان شاء اللہ جائز ہو گا۔ واللہ أعلم۔
➌ باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر آواز یا بدبو کا خدشہ نہ ہو تو پیشاب کے لیے صرف پردہ کافی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

② سنن نسائي میں اس باب کی پہلی حدیث سلیمان اعمش، ابووائل سے اور وہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں اور دوسری حدیث میں ابووائل کے شاگرد منصور ہیں، اس میں منصور نے ابووائل سے سماع کی صراحت فرمائی ہے اور تیسری حدیث میں سلیمان اور منصور دونوں ابووائل سے بیان کرتے ہیں لیکن منصور نے صرف آپ کے پیشاب کرنے کا ذکر کیا ہے جبکہ سلیمان نے اس کے بعد موزوں پر مسح کرنے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 26   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث305  
´کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے حکم کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے کوڑا خانہ پر آئے، اور اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 305]
اردو حاشہ:
(1)
پیشاب کرنے کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیٹھ کر اس حاجت سے فراغت حاصل کی جائے۔
نبی کریمﷺ کی اکثر عادت مبارکہ بیٹھ کر پیشاب کرنے کی تھی۔

(2)
اس مقام پر نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔
ممکن ہے اس کا سبب امت کو یہ بتانا ہو کہ یہ بھی جائز ہے تاکہ اگر کسی کو کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو وہ حرج محسوس نہ کرے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے کوئی ایسی ضرورت محسوس کی ہو، مثلاً:
بیٹھ کر پیشاب کرنے کی صورت میں جسم یا کپڑوں پر چھینٹے پڑنے کا اندیشہ محسوس ہوا ہو۔
یا کسی عذر کی وجہ سے بیٹھنے میں مشقت محسوس ہوئی ہو۔
واللہ أعلم،  تاہم یہ احتیاط ضروری ہے کہ پیشاب کے چھینٹے کپڑے یا جسم پر نہ پڑیں۔

(3)
کچھ لوگوں کی کوڑا پھینکنے کی جگہ کا مطلب یہ ہے کہ اس محلے کے لوگ اپنا کوڑا کرکٹ وہاں پھینکا کرتے تھے۔

(4)
نبیﷺ نے پیشاب کے لیے وہ جگہ اس لیے پسند فرمائی کہ وہاں دیوار کی اوٹ موجود تھی اس لیے پردے کا اہتمام بہتر طور پر ممکن تھا۔ دیکھیے:  (صحیح مسلم، الطھارۃ، باب المسح علی الخفین حدیث: 273)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 305