سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها -- کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
18. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ فِي الْكُنُفِ وَإِبَاحَتِهِ دُونَ الصَّحَارَى
باب: صحراء و میدان کے علاوہ پاخانہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 323
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ عِيسَى الْحَنَّاطِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فِي كَنِيفِهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ"، قَالَ عِيسَى: فَقُلْتُ ذَلِكَ لِلشَّعْبِيِّ، فَقَالَ: صَدَقَ ابْنُ عُمَرَ، وَصَدَقَ أَبُو هُرَيْرَةَ، أَمَّا قَوْلُ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ:" فِي الصَّحْرَاءِ لَا يَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ وَلَا يَسْتَدْبِرْهَا"، وَأَمَّا قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ: فَإِنَّ الْكَنِيفَ لَيْسَ فِيهِ قِبْلَةٌ، اسْتَقْبِلْ فِيهِ حَيْثُ شِئْتَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیت الخلاء میں قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث شعبی سے بیان کی تو انہوں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سچ کہا، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی سچ کہا، لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول یہ ہے کہ صحراء میں نہ تو قبلہ کی جانب منہ کرو نہ پیٹھ، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ بیت الخلاء میں قبلہ کا اعتبار نہیں، جدھر چاہو منہ کرو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8251، ومصباح الزجاجة: 130)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/97، 99، 114) (ضعیف جدًا)» ‏‏‏‏ (سند میں عیسیٰ بن أبی عیسیٰ الحناط متروک الحدیث ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث323  
´صحراء و میدان کے علاوہ پاخانہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیت الخلاء میں قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث شعبی سے بیان کی تو انہوں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سچ کہا، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی سچ کہا، لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول یہ ہے کہ صحراء میں نہ تو قبلہ کی جانب منہ کرو نہ پیٹھ، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ بیت الخلاء میں قبلہ کا اعتبار نہیں، جدھر چاہو منہ کرو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 323]
اردو حاشہ:
(1)
  حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ روایت اس سند سے تو ضعیف ہے تاہم دوسرے طرق سے اس کا حسن ہونا ثابت ہے۔
عیسی خیاط اور انھیں حناط بھی کہتے ہیں۔ دیکھیے: (تقریب التھذیب: 5352)
نے حضرت ابو ہریرہ کی جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے غالبا اس سے مراد صحیح مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں حضرت ابو ہریرہ ؓ نے نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا:
جب کوئی شخص قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تو قبلے کی طرف منہ بھی نہ کرے اور پیٹھ بھی نہ کرے (صحيح مسلم، الطهارة، باب الاستطابة، حديث: 265)
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث یہی ہے جو زیر مطالعہ ہے جس میں چار دیواری کے اندر اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں حافظ ابن حجر ؒ نے وضاحت کی ہےکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کسی غرض سے چھت پر چڑھےتو ان کی نظر اچانک نبی کریم ﷺ پر پڑ گئی جان بوجھ کر انھوں نے نہیں دیکھا تاہم اس سے اچانک یہ شرعی حکم معلوم ہوگیا کہ چار دیواری کے اندر ایسا کرنا جائز ہے۔ (الموسوعة الحديثية: 8؍616)

(2)
علامہ وحید الزمان نے فرمایا ہے کہ نبی ﷺ سے قبلے کی طرف منہ کرنے اور پیٹھ کرنے کی احادیث بھی مروی ہیں اور ان سے ممانعت کی احادیث بھی موجود ہیں۔
ان میں تطبیق دو طرح ہوسکتی ہے۔
ایک تو یہ کہ نہی تحریمی ہے لیکن ممانعت صرف صحراء اور کھلی جگہ میں ہے عمارت میں جائز ہے۔
دوسری صورت یہ ہےکہ نہی کو تنزیہی قرار دیا جائے تو اجتناب افضل ہوگا اور نبی ﷺ کے فعل سے جواز ثابت ہوگا۔ (ترجمہ سنن ابن ماجہ از علامہ وحید الزمان۔
۔
۔
۔
۔
بتصرف)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 323   
قَالَ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ سَلَمَةَ: وَحَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی عبیداللہ بن موسیٰ اسی طرح بیان کرتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا