سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها -- کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
22. بَابُ : التَّبَاعُدِ لِلْبَرَازِ فِي الْفَضَاءِ
باب: قضائے حاجت کے لیے میدان میں دور جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 332
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْمُثَنَّى ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَتَنَحَّى لِحَاجَتِهِ، ثُمَّ جَاءَ فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ قضائے حاجت کے لیے الگ تھلگ ہوئے پھر واپس آئے، وضو کے لیے پانی مانگا اور وضو کیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1092، ومصباح الزجاجة: 137) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں ضعف ہے، اس لئے کہ عمر بن المثنی الاشجعی الرقی مستور اور عطاء خراسانی تدلیس و ارسال کرنے والے ہیں، اور ان کی روایت عنعنہ سے ہے، نیز ان کا سماع انس رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 33)

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 145  
´وضو میں ڈاڑھی کا خلال تاکیدی سنت`
«. . . عَنْ أَنَسٍ يَعْنِي ابْنَ مَالِكٍ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْيَتَهُ، وَقَالَ: هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو ایک چلو پانی لے کر اسے اپنی ٹھوڑی کے نیچے لے جاتے تھے، پھر اس سے اپنی داڑھی کا خلال کرتے اور فرماتے: میرے رب عزوجل نے مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 145]
فوائد و مسائل:
وضو میں ڈاڑھی کا خلال تاکیدی سنت ہے، البتہ غسل جنابت میں اسے دھونا چاہیے، اس لیے کے ہر ہر بال کے نیچے جنابت ہوتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 145   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث332  
´قضائے حاجت کے لیے میدان میں دور جانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ قضائے حاجت کے لیے الگ تھلگ ہوئے پھر واپس آئے، وضو کے لیے پانی مانگا اور وضو کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 332]
اردو حاشہ:
یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن وضو ٹوٹ جانے کے بعد وضو کرلینے اور ہر وقت باوضو رہنے کے استحباب میں کوئی شک نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 332