سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها -- کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
27. بَابُ : الرَّجُلِ يُسَلَّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ يَبُولُ
باب: پیشاب کے دوران سلام کا جواب۔
حدیث نمبر: 353
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ العسقلاني ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" مَرَّ رَجُلٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبُولُ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس سے گزرا، اس نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/ الحیض 28 (370)، سنن ابی داود/ الطہارة 8 (16)، سنن الترمذی/ الطہارة 67 (90)، الاستئذان 27 (2720)، سنن النسائی/الطہارة 33 (37)، (تحفة الأشراف: 7696) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سلام کا جواب نہیں دیا کا مطلب یہ ہے کہ فوری طور پر جواب نہیں دیا، نہ کہ مطلقاً جواب ہی نہیں دیا، کیونکہ حدیث نمبر (۳۵۱) پر گزر چکا ہے کہ پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلیاں زمین پر ماریں اور تیمم کیا، اس کے بعد سلام کا جواب دیا، اور سنن نسائی میں مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے «فلم يرد عليه السلام حتى توضأ فلما توضأ رد عليه»  وضو کرنے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، پھر جب وضو کرلیا تو سلام کا جواب دیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 37  
´پیشاب کرنے والے کو سلام کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے، تو اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 37]
37۔ اردو حاشیہ:
➊ نجاست والی حالت میں اللہ کا ذکرمناسب نہیں، اس لیے پیشاب اور پاخانہ کرتے ہوئے سلام کا جواب دینا اور ذکر و اذکار کرنا درست نہیں۔ جب وہ جواب نہیں دے سکتا تو اسے سلام بھی نہیں کہنا چاہیے، گویا جس حالت میں سلام کا جواب دینا منع ہے اس حالت میں اسے سلام کہنا بھی درست نہیں، سوائے حالت نماز کے کہ اس میں ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دینا مسنون ہے۔
➋ اہل علم فرماتے ہیں: جس طرح قضائے حاجت کے وقت سلام کا جواب دینا درست نہیں اسی طرح اس حالت میں چھینک مارنے والے کا جواب دینا یا خود الحمد للہ کہنا اور اذان کا جواب دینا بھی درست نہیں۔ ایسے ہی حالت جماع میں ان باتوں سے رکے رہنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 37   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 331  
´حضر (اقامت) میں تیمم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاخانہ سے فارغ ہو کر آئے تو بئر جمل کے پاس ایک آدمی کی ملاقات آپ سے ہو گئی، اس نے آپ کو سلام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس آئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دیوار پر مارا پھر اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے سلام کا جواب دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 331]
331۔ اردو حاشیہ:
مذکورہ دو روایات میں سے بھی دو مرتبہ ہاتھ مارنے والی روایت منکر اور ضعیف ہے اور ایک مرتبہ ہاتھ مارنے والی صحیح، اس لیے قابل عمل حدیث یہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 331   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 90  
´بغیر وضو سلام کا جواب دینے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 90]
اردو حاشہ:
1؎:
اور یہی راجح ہے کہ آپ ﷺ پیشاب کی حالت میں ہونے کی وجہ سے جواب نہیں دیا،
نہ کہ وضو کے بغیر سلام کا جواب جائز نہیں،
اور جن حدیثوں میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فراغت کے بعد وضو کیا اور پھر آپ نے جواب دیا تو یہ استحباب پر محمول ہے،
نیز یہ بات آپ کو خاص طور پر پسند تھی کہ آپ اللہ کا نام بغیر طہارت کے نہیں لیتے تھے،
اس حدیث سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پائخانہ پیشاب کرنے والے پر سلام ہی نہیں کرنا چاہئے،
یہ حکم وجوبی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 90