صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْمَدِينَةِ -- کتاب: مدینہ کے فضائل کا بیان
1. بَابُ حَرَمِ الْمَدِينَةِ:
باب: مدینہ کے حرم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1867
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَحْوَلُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ كَذَا إِلَى كَذَا، لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا، وَلَا يُحْدَثُ فِيهَا حَدَثٌ مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن احول عاصم نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ حرم ہے فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک (یعنی جبل عیر سے ثور تک) اس حد میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے نہ کوئی بدعت کی جائے اور جس نے بھی یہاں کوئی بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1867  
1867. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مدینہ فلاں مقام سے فلاں مقام تک حرم ہے۔ لہذا یہاں کادرخت نہ کاٹا جائے اور نہ اس میں کسی بدعت کاارتکاب کیاجائے۔ جس نے یہاں کوئی بدعت پیدا کی اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1867]
حدیث حاشیہ:
حرم مدینہ کا بھی وہی حکم ہے جو مکہ کے حرم کا ہے صرف جزا لازم نہیں آتی۔
امام مالک اور امام شافعی اور احمد اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔
شعبہ اور حماد کی روایت میں اتنا اور زیادہ ہے یا کسی بدعتی کو جگہ دے دے۔
معاذ اللہ بدعت ایسی بری بلا ہے کہ آدمی بدعتی کو جگہ دےنے سے ملعون ہوجاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1867   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1867  
1867. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مدینہ فلاں مقام سے فلاں مقام تک حرم ہے۔ لہذا یہاں کادرخت نہ کاٹا جائے اور نہ اس میں کسی بدعت کاارتکاب کیاجائے۔ جس نے یہاں کوئی بدعت پیدا کی اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1867]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت کے مطابق راوئ حدیث حضرت عاصم نے حضرت انس ؓ سے دریافت کیا:
آیا رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کو حرم قرار دیا ہے؟ تو انہوں نے جواب میں یہ حدیث بیان فرمائی۔
(صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث: 7306) (2)
حرم مدینہ کی تعیین بھی روایات میں موجود ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ جبل عائر سے فلاں جگہ تک حرم ہے۔
(صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث: 1870)
صحیح مسلم میں ہے کہ جبل عیر سے جبل ثور تک حدود حرم ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3327(1370)
حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کے ارد گرد بارہ میل تک سرکاری حرم قرار دیا ہے۔
فرماتے ہیں:
اگر مجھے اس علاقے میں ہرن چرتا نظر آئے تو میں اسے خوفزدہ نہیں کروں گا۔
(صحیح مسلم، حدیث: 3333(1272) (3)
واضح رہے کہ ایک جبل ثور مکہ مکرمہ میں معروف ہے۔
اس کے علاوہ مدینہ طیبہ میں ایک چوڑی پہاڑی کا نام ثور ہے جو جبل اُحد کے پچھلی جانب ہے جسے مدینہ طیبہ کے باشندے جانتے ہیں۔
(فتح الباري: 107/4) (4)
ایک روایت میں ہے کہ یہ لعنت زدگی ہر اس شخص کے لیے ہے جو بدعت کا ارتکاب کرے یا کسی بدعتی کو اپنے ہاں پناہ دے۔
معلوم ہوا کہ بدعت ایک ایسا سنگین جرم ہے کہ آدمی اس کے مرتکب کو پناہ دینے پر بھی ملعون ہو جاتا ہے، نیز مدینہ طیبہ میں اس کی گندگی مزید بڑھ جاتی ہے۔
(فتح الباري: 109/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1867