سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها -- کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
41. بَابُ : مَا جَاءَ فِي التَّسْمِيَةِ فِي الْوُضُوءِ
باب: بسم اللہ کہہ کر وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 398
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا يَزِيدُ بْنُ عِيَاضٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو ثِفَالٍ ، عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَدَّتَهُ بِنْتَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ ، تَذْكُرُ أَنَّهَا سَمِعَتْ أَبَاهَا سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ ، يَقُولُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا وُضُوءَ لَهُ، وَلَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ".
سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں، اور جس نے «بسم اللہ» نہیں کہا، اس کا وضو نہیں ہوا۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطہارة 20 (25)، دون قو لہ: ”لا صلاة لمن لا وضوء لہ‘‘ (تحفة الأشراف: 4470، ومصباح الزجاجة: 167)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة 48 (101)، مسند احمد (4/70، 5/381، 6/382) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 25  
´وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنے کا بیان​۔`
سعید بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو «بسم اللہ» کر کے وضو شروع نہ کرے اس کا وضو نہیں ہوتا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 25]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ((بِسْمِ اللَّهِ)) کا پڑھنا وضو کے لیے رکن ہے یا شرط اس کے بغیر وضو صحیح نہیں ہوگا،
کیونکہ ((لاَ وُضُوءَ)) سے صحت اور وجود کی نفی ہو رہی ہے نہ کہ کمال کی،
بعض لوگوں نے اسے کمال کی نفی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ بغیر ((بِسْمِ اللَّهِ)) کیے بھی وضو صحیح ہو جائے گا لیکن وضو کامل نہیں ہوگا،
لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ ((لَا)) کو اپنے حقیقی معنی نفی صحت میں لینا ہی حقیقت ہے اورنفی کمال کے معنی میں لینا مجاز ہے اور یہاں مجازی معنی لینے کی کوئی مجبوری نہیں ہے،
نفی کمال کے معنی میں آئی احادیث ثابت نہیں ہیں،
امام احمد کے نزدیک راجح ((بِسْمِ اللَّهِ)) کا وجوب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 25