صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْمَدِينَةِ -- کتاب: مدینہ کے فضائل کا بیان
1. بَابُ حَرَمِ الْمَدِينَةِ:
باب: مدینہ کے حرم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1870
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" مَا عِنْدَنَا شَيْءٌ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ، وَهَذِهِ الصَّحِيفَةُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةُ، حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَائِرٍ إِلَى كَذَا مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ، وَلَا عَدْلٌ، وَقَالَ:" ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ، وَلَا عَدْلٌ، وَمَنْ تَوَلَّى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: عَدْلٌ فِدَاءٌ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیفہ کے سوا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ہے اور کوئی چیز (شرعی احکام سے متعلق) لکھی ہوئی صورت میں نہیں ہے۔ اس صحیفہ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ عائر پہاڑی سے لے کر فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس حد میں کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے، نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی کا بھی عہد کافی ہے اس لیے اگر کسی مسلمان کی (دی ہوئی امان میں دوسرے مسلمان نے) بدعہدی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل، اور جو کوئی اپنے مالک کو چھوڑ کر اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو مالک بنائے، اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے، نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1870  
1870. حضرت علی ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا: ہمارے پاس اللہ کی کتاب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یا پھر یہ صحیفہ جو نبی کریم ﷺ سے منقول ہے۔ (اس میں ہے کہ) مدینہ عائر پہاڑ سے فلاں جگہ تک قابل احترام ہے۔ لہذا جو شخص اس میں کوئی نئی بات (بدعت یا دست درازی) کرے گا یا بدعتی کو جگہ دے گا اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اس کی نہ کوئی نفل عبادت قبول ہوگی اور نہ کوئی فرض عبادت۔ نیز فرمایا: مسلمانوں میں پاس عہد کی ذمہ داری مشترکہ ہے۔ اب جو کوئی مسلمان کے عہد کو توڑے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت ہے۔ اس کاکوئی نفل قبول ہوگا نہ فرض۔ اور جو شخص اپنے آقاؤں کی اجازت کے بغیر کسی قوم سے معاہدہ موالات کرے گا اس پر بھی اللہ کی، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت ہے۔ اس کی نہ نفل عبادت قبول ہوگی۔ اور نہ فرض عبادت۔ امام بخاری ؒ نے فرمایا: عدل کے معنی فدیہ کے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1870]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے بھی امام بخاری ؒ نے مدینہ طیبہ کے حرم ہونے پر استدلال کیا ہے۔
اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کا شکار بھی نہ پکڑا جائے لیکن ائمۂ ثلاثہ اس کے ارتکاب پر کوئی فدیہ واجب نہیں کرتے جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ مدینہ طیبہ کو حرم تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ مدینہ کے درخت کاٹنے اور اس کا شکار کرنے کو جائز کہتے ہیں۔
ان کے ہاں احادیث مذکورہ کا مطلب مدینہ کی زینت کو باقی رکھنا ہے تاکہ لوگ مدینہ طیبہ سے مانوس ہوں اور اس سے وحشت محسوس نہ کریں، لیکن احادیث سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا:
حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا، میں مدینہ طیبہ قابل احترام ٹھہراتا ہوں (2)
اس حدیث سے ان روافض و شیعہ حضرات کی بھی تردید ہوتی ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کے پاس رسول اللہ ﷺ کا وصیت نامہ تھا جس میں رسول اللہ ﷺ نے راز کے طور پر حضرت علی ؓ کو کچھ باتیں تلقین کی تھیں اور وہ اسرار دین پر مشتمل ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے عدل کے معنی فدیہ بتائے ہیں۔
یہ معنی بھی قابل اعتبار ہیں
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1870