صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْمَدِينَةِ -- کتاب: مدینہ کے فضائل کا بیان
2. بَابُ فَضْلِ الْمَدِينَةِ، وَأَنَّهَا تَنْفِي النَّاسَ:
باب: مدینہ کی فضیلت اور بیشک مدینہ (برے) آدمیوں کو نکال باہر کرتا ہے۔
حدیث نمبر: 1871
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحُبَابِ سَعِيدَ بْنَ يَسَارٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى، يَقُولُونَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِينَةُ، تَنْفِي النَّاسَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوالحباب سعید بن یسار سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسے شہر (میں ہجرت) کا حکم ہوا ہے جو دوسرے شہروں کو کھا لے گا۔ (یعنی سب کا سردار بنے گا) منافقین اسے یثرب کہتے ہیں لیکن اس کا نام مدینہ ہے وہ (برے) لوگوں کو اس طرح باہر کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو نکال دیتی ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 636  
´مدینے کی فضیلت`
«. . . 511- مالك عن يحيى بن سعيد قال: سمعت أبا الحباب سعيد بن يسار يقول: سمعت أبا هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أمرت بقرية تأكل القرى، يقولون: يثرب، وهى المدينة، تنفي الناس كما ينفي الكير خبث الحديد. . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ایک بستی کے بارے میں حکم دیا گیا ہے جو دوسری بستیوں کو کھاتی (یعنی ان پر غالب آتی) ہے۔ لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور یہ مدینہ ہے (برے) لوگوں کو اس طرح باہر نکال دیتی ہے جیسے بھٹی لوہے کا زنگ وغیرہ باہر نکال دیتی ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 636]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1871، ومسلم 1382، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ مدینہ طیبہ فضیلت والی بستی ہے لہٰذا جس آدمی کے پاس استطاعت ہو تو اس کے لئے مدینہ میں رہائش اختیار کرنا بہتر ہے۔
➋ نیز دیکھئے [حديث:الموطأ 85، 406، مسلم 1377]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 511   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1871  
1871. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے ایک ایسی بستی میں جانے کا حکم دیاگیا ہے جو دوسری بستیوں کو اپنے اندر جذب کرے گی لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ اس کاصحیح ناممدینہ ہے۔ وہ برے لوگوں کو اس طرح نکال دے گی جیسے بھٹی لوہے کا میل کچیل نکال دیتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1871]
حدیث حاشیہ:
امام مالک بن انس ؓ ائمہ اربعہ میں سے ایک مشہور ترین امام ہیں، جو انس بن مالک بن ابی عامر کے بیٹے اور اصبحی ہیں ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔
95ھ میں پیدا ہوئے اور مدینہ طیبہ میں بعمر84 سال179ھ میں فات پائی۔
آپ نہ صرف حجاز کے امام تھے بلکہ حدیث و فقہ میں تمام مسلمانوں کے مقتداتھے آپ کے فخر کے لیے اسی قدر کافی ہے کہ امام شافعی آپ کے شاگردوں میں سے ہیں، آپ نے زہری، یحییٰ بن سعید، نافع، محمد بن منکدر، ہشام بن عروہ، یزید بن اسلم، ربیعہ بن ابوعبدالرحمن اور ان کے علاوہ بہت سے حضرات سے علم حدیث حاصل کیا اورآپ سے اس قدر مخلوق نے روایت کی جن کا شمار نہیں ہوسکتا۔
آپ کے شاگرد پورے ملک کے امام بنے جن میں امام شافعی، محمد بن ابراہیم بن دینار، ابوہاشم عبدالعزیز بن ابی حازم شامل ہیں جو اپنے علم و عمل کے لحاظ سے آپ کے شاگردوں میں بے نظیر مانے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں معین بن عیسیٰ، یحییٰ بن یحییٰ، عبداللہ بن مسلمہ قعنبی، عبداللہ بن وہب جیسے لوگوں کا شمارنہیں، یہی امام بخاری، مسلم، ابوداود، ترمذی، احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین جیسے محدثین کرام کے اساتذہ ہیں۔
جب حدیث کا درس دیتے تو وضو فرما کر مسند پر تشریف لاتے۔
داڑھی میں کنگھا کرتے، خوشبو استعمال فرماتے اور نہایت باوقار اورپرہیئت ہو کر بیٹھتے اور فرمایا کرتے کہ میں یہ اہتمام حدیث نبوی کی عظمت کرنے کے لیے کرتا ہوں۔
ابوعبدللہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا آنحضرت ﷺ مسجد میں تشریف فرما ہیں، لوگ ارد گرد ہیں اور امام مالک حضور ﷺ کے سامنے مودبانہ کھڑے ہوئے ہیں۔
آنحضرت ﷺ کے سامنے مشک کا ڈھیر رکھا ہوا ہے اور آپ مٹھیاں بھر بھر کر وہ مشک عنبر امام مالک کو دے رہے ہیں۔
اورامام مالک اسے لوگوں پر چھڑک رہے ہیں۔
مطرف نے کہا کہ میں نے اس کی تعبیر علم حدیث کی خدمت اور اتباع سنت سمجھی، امام شافعی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت امام مالک کے مکان کے دروازے پر کچھ خراسان کے گھوڑوں کی جماعت اورکچھ مصر کے خچروں کا غول دیکھے جن سے بہتر میں نے کبھی نہیں دکھے تھے۔
میں نے امام سے عرض کیا کہ یہ کیسے اچھے ہیں، آپ نے فرمایا کے اے ابوعبداللہ! یہ تمام میری جانب سے آپ کے لیے تحفہ ہیں، قبول فرمائیے۔
میں نے گزارش کی اپنی سواری کے لیے کوئی جانور رکھ لیجئے۔
جواب دیا کہ مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ جس زمین کو رسول اللہ ﷺ کی آرام گاہ بننے کا شرف حاصل ہے میں اسے کسی جانور کے کھروں سے روند کر گزاروں۔
آپ کے مناقب کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔
رحمه اللہ رحمة واسعة (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1871   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1871  
1871. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے ایک ایسی بستی میں جانے کا حکم دیاگیا ہے جو دوسری بستیوں کو اپنے اندر جذب کرے گی لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ اس کاصحیح ناممدینہ ہے۔ وہ برے لوگوں کو اس طرح نکال دے گی جیسے بھٹی لوہے کا میل کچیل نکال دیتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1871]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں مدینہ طیبہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ دیگر شہروں کا پایۂ تخت اور دارالحکومت بن جائے گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور مدینہ طیبہ ایک مدت تک ایران، توران، مصر اور شام کا دارالخلافہ رہا۔
اسلامی لشکروں کا مرکز رہا اور یہیں سے لشکر روانہ ہو کر فتوحات کرتے اور غنیمتیں لاتے۔
(2)
منافقین اسے یثرب کہتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس نام کو پسند نہیں کیا کیونکہ یثرب کے معنی شرمندگی دلانا ہے اور یہ معنی مدینہ طیبہ کی شان کے خلاف ہیں کہ جو وہاں جائے اسے شرمندہ کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند کیا کہ اسے مدینہ کہا جائے۔
اس اطلاق میں رفعت شان ہے، یعنی مدینہ طیبہ کامل شہر ہے۔
(3)
اس عنوان کا دوسرا جز مدینہ طیبہ برے لوگوں کو نکال دے گا اپنے عموم پر نہیں بلکہ وقت اور کچھ لوگوں کے ساتھ خاص ہے، چنانچہ قاضی عیاض نے لکھا ہے:
یہ حدیث رسول اللہ ﷺکے زمانے کے ساتھ خاص ہے کیونکہ ہجرت اور مدینہ میں اقامت پر وہی صبر کرتا تھا جو کامل الایمان ہوتا۔
اس پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس میں ایک اعرابی کے بیعت واپس لینے کے مطالبے کا ذکر ہے۔
امام نووی ؒ نے لکھا ہے:
اس حدیث کا مصداق دجال کے وقت ہو گا جب مدینہ سے بہت سے منافقین نکل کر دجال سے مل جائیں گے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
احادیث کے اعتبار سے دونوں زمانے مراد لیے جا سکتے ہیں، نیز یہ ضروری نہیں کہ مدینے سے تمام شریر لوگ نکل جائیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مدینہ طیبہ مسلسل ان کی چھانٹی کرتا رہے گا اگرچہ کچھ اس میں رہ بھی جائیں گے جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ﴾ اہل مدینہ میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔
(التوبة: 101: 9)
یہ بھی ضروری نہیں کہ مدینے سے جانے والے سب شریر ہوں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت معاذ، ابو عبیدہ، ابن مسعود، حضرت طلحہ، زبیر اور حضرت عمار ؓ نے مدینہ طیبہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں اقامت اختیار کر لی تھی، حالانکہ یہ لوگ دینی اعتبار سے افضل تھے۔
(فتح الباري: 114/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1871