صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْمَدِينَةِ -- کتاب: مدینہ کے فضائل کا بیان
5. بَابُ مَنْ رَغِبَ عَنِ الْمَدِينَةِ:
باب: جو شخص مدینہ سے نفرت کرے۔
حدیث نمبر: 1875
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" تُفْتَحُ الْيَمَنُ فَيَأْتِي قَوْمٌ يُبِسُّونَ فَيَتَحَمَّلُونَ بِأَهْلِهِمْ وَمَنْ أَطَاعَهُمْ، وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، وَتُفْتَحُ الشَّأْمُ فَيَأْتِي قَوْمٌ يُبِسُّونَ فَيَتَحَمَّلُونَ بِأَهْلِيهِمْ وَمَنْ أَطَاعَهُمْ، وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، وَتُفْتَحُ الْعِرَاقُ فَيَأْتِي قَوْمٌ يُبِسُّونَ فَيَتَحَمَّلُونَ بِأَهْلِيهِمْ وَمَنْ أَطَاعَهُمْ، وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اور ان سے سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ یمن فتح ہو گا تو لوگ اپنی سواریوں کو دوڑاتے ہوئے لائیں گے اور اپنے گھر والوں کو اور ان کو جو ان کی بات مان جائیں گے سوار کر کے مدینہ سے (واپس یمن کو) لے جائیں گے کاش! انہیں معلوم ہوتا کہ مدینہ ہی ان کے لیے بہتر تھا اور عراق فتح ہو گا تو کچھ لوگ اپنی سواریوں کو تیز دوڑاتے ہوئے لائیں گے اور اپنے گھر والوں کو اور جو ان کی بات مانیں گے اپنے ساتھ (عراق واپس) لے جائیں گے کاش! انہیں معلوم ہوتا کہ مدینہ ہی ان کے لیے بہتر تھا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 635  
´مدینے کی فضیلت`
«. . . 479- مالك عن هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن سفيان بن أبى زهير قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: تفتح اليمن فيأتي قوم يبسون فيتحملون بأهليهم ومن أطاعهم، والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون وتفتح العراق فيأتي قوم يبسون فيتحملون بأهليهم ومن أطاعهم، والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، وتفتح الشام فيأتي قوم يبسون فيحتملون بأهليهم ومن أطاعهم، والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون. . . .»
. . . سیدنا سفیان بن زہیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: یمن فتح ہو گا پھر ایک قوم آئے گی (اور مدینے سے نکلے گی) وہ اپنے گھر والوں اور ماتحت لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہو گا اگر وہ جانتے ہوتے۔ عراق فتح ہو گا پھر ایک قوم آئے گی جو اپنے گھر والوں اور ماتحت لوگوں کو لے کر سفر کریں گے حالانکہ ان کے لئے مدینہ بہتر ہو گا اگر وہ جانتے ہوتے۔ اور شام فتح ہو گا پھر ایک قوم آئے گی جو اپنے گھر والوں اور ماتحت لوگوں کو لے کر سفر کریں گے اور ان کے لئے مدینہ بہتر ہو گا اگر وہ جانتے ہوتے۔ اور شام فتح ہو گا پھر ایک قوم آئے گی جو اپنے گھر والوں اور ماتحت لوگوں کو لے کر سفر کریں گے اور ان کے لئے مدینہ بہتر ہو گا اگر وہ جانتے ہوتے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 635]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1875، من حديث مالك ومسلم 1388، من حديث هشام بن عروة به]

تفقه:
➊ مدینہ طیبہ کی فضیلت اور اہمیت واضح ہے۔
➋ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں رہائش سب علاقوں میں رہائش سے بہتر ہے اور اس پر اجماع ہے۔ [التمهيد 22 / 224]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت بالکل حق اور سچ ہے۔
➍ حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا کہ یہ حدیث نبوت کی نشانیوں میں سے ہے کیونکہ اس میں غیب کی خبر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے سوائے اس کے جس کی اطلاع اللہ نے آپ کو بذریعہ وحی دی۔ [التمهيد 22 / 224]
➎ نیز دیکھئے: [الموطأ ح85، 406، 511]، اور [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 2 / 884 890]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 479   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1875  
1875. حضرت سفیان بن ابو زبیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: (جب) یمن فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے آئیں گے۔ اپنے اہل خانہ کو اورجو ان کا کہا مانیں گے انھیں سوار کرکے مدینہ طیبہ سے لے جائیں گے۔ حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اور(جب) شام فتح ہوگا تو بھی ایک جماعت اپنے اونٹ ہانکتی ہوئی آئے گی۔ اپنے اہل وعیال اور ان کی تابعداری کرنے والوں کو لاد کر لے جائے گی۔ کاش!انھیں معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہے (اسی طرح) عراق فتح ہوگا تو بھی کچھ لوگ اپنے جانور ہانکتے آئیں گے مدینہ طیبہ سے اپنے گھر والوں اور متعلقین کو نکال کر لے جائیں گے۔ کاش!وہ جانتے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1875]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی بشارت بالکل صحیح ثابت ہوئی، مدینہ ایک مدت تک ایران، عرب، مصر اور شام توران کا پایہ تخت رہا اور خلفائے راشدین نے مدینہ منور میں رہ کر دور دور اطراف عالم میں حکومت کی، پھر بنو امیہ نے اپنا پایہ تحت شام کو قرا ردیا اورعباسیہ کے وقت میں بغداد اسلام کی راجدھانی قرارپایا، آخری خلیفہ معتصم باللہ ہوا اور اس کے زوال سے اسلامی خلافت مٹ گئی، مسلمان گروہ گروہ تقسیم ہو کر ہر جگہ مغلوب ہو گئے، اب تک یہی حال ہے کہ عربوں کی ایک بڑی تعداد ہے، ان کی حکومتیں ہیں، باہمی اتحاد نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ قبلہ اول مسجد اقصیٰ پر یہود قابض ہیں۔
إنا للہ و إنا إلیه راجعون۔
اللهم انصر الإسلام و المسلمین و اخذل الکفرة و الفجرة و الیهود والملحدین (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1875   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1875  
1875. حضرت سفیان بن ابو زبیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: (جب) یمن فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے آئیں گے۔ اپنے اہل خانہ کو اورجو ان کا کہا مانیں گے انھیں سوار کرکے مدینہ طیبہ سے لے جائیں گے۔ حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اور(جب) شام فتح ہوگا تو بھی ایک جماعت اپنے اونٹ ہانکتی ہوئی آئے گی۔ اپنے اہل وعیال اور ان کی تابعداری کرنے والوں کو لاد کر لے جائے گی۔ کاش!انھیں معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہے (اسی طرح) عراق فتح ہوگا تو بھی کچھ لوگ اپنے جانور ہانکتے آئیں گے مدینہ طیبہ سے اپنے گھر والوں اور متعلقین کو نکال کر لے جائیں گے۔ کاش!وہ جانتے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1875]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں اس حدیث کا سبب بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے راوئ حدیث حضرت سفیان بن ابو زہیر ؓ کو کسی مہم کے لیے روانہ کیا۔
جب وہ وادئ عقیق پہنچے تو ان کا گھوڑا بیمار ہو گیا۔
انہوں نے واپس آ کر رسول اللہ ﷺ سے اپنے گھوڑے کے متعلق عرض کی تو آپ اس کے لیے گھوڑے کا بندوبست کرنے کی غرض سے نکلے۔
حضرت ابوجہم بن حذیفہ ؓ کے پاس ایک گھوڑا تھا۔
آپ نے اس سے اس کی قیمت پوچھی تو اس نے کہا:
مجھے قیمت کی چنداں ضرورت نہیں، آپ اسے لے لیں اور جسے چاہیں دے دیں۔
جب آپ وہاں سے واپس ہوئے اور بئراہاب پر پہنچے تو حضرت سفیان بن ابو زہیر ؓ سے فرمایا:
مدینہ طیبہ کی آبادی اس مقام تک آ جائے گی۔
پھر آپ نے فرمایا:
ملک شام فتح ہو گا، مدینہ طیبہ کے لوگ وہاں جائیں گے تو اس کی خوشحالی اور زرخیزی انہیں خیرہ کر دے گی۔
کاش کے مدینہ طیبہ کی قدروقیمت انہیں معلوم ہو۔
بہرحال ان کا مدینہ طیبہ میں رہنا بہتر ہو گا۔
(مسندأحمد: 220/5) (2)
رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی، چنانچہ حدیث میں ذکر کردہ ترتیب کے مطابق یہ علاقے فتح ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک اور سیدنا ابوبکر ؓ کے دور خلافت میں یمن کے علاقے فتح ہوئے، اس کے بعد شام پھر عراق فتح ہوا لیکن رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے کوچ کر کے وہاں جانے کو پسند نہیں فرمایا کیونکہ مدینہ طیبہ کا حرم، وحی اور برکات اترنے کی جگہ ہے۔
وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
بہرحال مدینہ طیبہ سے نکل کر کسی دوسرے شہر میں آباد ہونے والا وہ شخص قابل مذمت ہے جو نفرت و کراہت کرتے ہوئے یہاں سے جائے، البتہ جہاد، حصول علم، تبلیغ دین یا کسی اور ضرورت کے پیش نظر یہاں سے جانے والا اس وعید سے خارج ہے۔
(فتح الباري: 120/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1875