صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
1. بَابُ وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ:
باب: رمضان کے روزوں کی فرضیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1892
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" صَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاشُورَاءَ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِكَ"، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ لَا يَصُومُهُ، إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ صَوْمَهُ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رکھنے کا صحابہ رضی اللہ عنہم کو ابتداء اسلام میں حکم دیا تھا، جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو عاشورہ کا روزہ بطور فرض چھوڑ دیا گیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عاشورہ کے دن روزہ نہ رکھتے مگر جب ان کے روزے کا دن ہی یوم عاشورہ آن پڑتا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1737  
´یوم عاشوراء کا روزہ۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عاشوراء (محرم کی دسویں تاریخ) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں دور جاہلیت کے لوگ روزہ رکھتے تھے، لہٰذا تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہے تو رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1737]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ یہ روزہ فر ض نہیں البتہ ثواب کا کا م ضرور ہے
(2)
جاہلیت کے جس کام کی تائید قرآن وحدیث سے ہو جائے وہ ہماری شریعت کا حکم بن جاتا ہے پھر اسے جاہلیت کا کام سمجھ کر نہیں بلکہ اسلام کا حکم سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے اور جس کام سے منع کر دیا جائے وہ با لکل حرام ہوتا ہے جس کام کے بارے میں حکم یا ممانعت کی دلیل نہ ملے اس سے اجتنا ب کرنا چاہیے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے بہت سے کاموں میں یہود و نصاری کی مخالفت کی ہے حتی کے صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھ لیا کہ کفار کی مخالفت اسلام کا ایک اصول ہے یہی وجہ ہے کہ جب نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے لئے مشوره ہوا تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ناقوس بجانے اور آگ جلانے کی تجویز رد کر دی كہ یہ غیر مسلمو ں کا طر یقہ ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھیے: (سنن ابن ماجة، الأذان، باب بدء الأذان، حدیث: 707)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1737   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2443  
´یوم عاشورہ (دسویں محرم) کے روزہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب رمضان کے روزوں فرضیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (یوم عاشوراء) اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے لہٰذا جو روزہ رکھنا چاہے رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2443]
فوائد ومسائل:
دن تو سارے ہی اللہ کے ہیں، مگر جن ایام میں کوئی خاص واقعہ پیش آیا ہو اور دینی و شرعی اعتبار سے ان کی اہمیت ہو، تو انہیں (أَيَّامَ ٱللَّهِ) کہا گیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2443   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1892  
1892. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی یہ روزہ رکھنے کاحکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ ترک کردیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ یہ روزہ نہیں رکھتے تھے۔ البتہ اگر ان کے روزوں کے موافق ہوجاتا تو رکھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1892]
حدیث حاشیہ:
یعنی جس دن ان کو روزہ رکھنے کی عادت ہوتی مثلاً پیر یا جمعرات اور اس دن عاشورہ کا دن بھی آپڑتا تو روزہ رکھ لیتے تھے، یوم عاشور محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے، یہ قدیم زمانے سے ایک تاریخی دن چلا آرہا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1892