صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
1. بَابُ وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ:
باب: رمضان کے روزوں کی فرضیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1893
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنَّ عِرَاكَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عُرْوَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ قُرَيْشًا كَانَتْ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصِيَامِهِ حَتَّى فُرِضَ رَمَضَانُ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے اور ان سے عراک بن مالک نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 753  
´یوم عاشوراء کا روزہ نہ رکھنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 753]
اردو حاشہ: 1 ؎:
مؤلف نے حدیث پر حکم تیسرے فقرے میں لگایا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 753   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1893  
1893. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے فرمایا: جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1893]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ دونوں احادیث رمضان کے روزوں کی فرضیت کے لیے واضح دلیل ہیں۔
ان میں صراحت ہے کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہو گئی۔
(عمدۃالقاري: 8/7) (2)
اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہمارے لیے عاشوراء کا روزہ سنت ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فرض تھا یا سنت؟ اس میں اختلاف ہے۔
روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشوراء کا روزہ واجب تھا، پھر رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے، البتہ جن ایام میں انہیں روزہ رکھنے کی عادت تھی اگر ان دنوں میں عاشوراء آ جاتا تو روزہ رکھ لیتے۔
اس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ روزہ متروک ہے لیکن ایسا نہیں کیونکہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے صاف ظاہر ہے کہ عاشوراء کا روزہ منسوخ ہو جانے کے بعد اس دن کا روزہ رکھنے کے متعلق اختیار دے دیا گیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
اس روایت سے عاشوراء کے روزے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
اس کی مزید وضاحت آئندہ آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1893