سنن ابن ماجه
كتاب الصلاة -- کتاب: صلاۃ کے احکام و مسائل
1. بَابُ : أَبْوَابِ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ
باب: اوقات نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 668
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا عَلَى مَيَاثِرِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي إِمَارَتِهِ عَلَى الْمَدِينَةِ، وَمَعَهُ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَأَخَّر عُمَرُ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ : أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّى إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" نَزَلَ جِبْرِيلُ فَأَمَّنِي فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتَ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتَ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ".
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کے گدوں پہ بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت عمر بن عبدالعزیز مدینہ منورہ کے امیر تھے، اور ان کے ساتھ عروہ بن زبیر بھی تھے، عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز میں کچھ دیر کر دی تو ان سے عروہ نے کہا: سنیے! جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت فرمائی، تو ان سے عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو کچھ کہہ رہے ہو سوچ سمجھ کر کہو؟ اس پر عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا کہ میں نے اپنے والد ابی مسعود رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے، اور انہوں نے میری امامت کی تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔۔۔ وہ اپنی انگلیوں سے پانچوں نمازوں کو شمار کر رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المواقیت 2 (521)، بدء الخلق 6 (3221)، المغازي 12 (4007)، صحیح مسلم/المساجد 31 (610)، سنن ابی داود/الصلاة 2 (394)، سنن النسائی/المواقیت 1 (495)، (تحفة الأشراف: 9977)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (1)، مسند احمد (4/120) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: تو عروہ نے حدیث کی سند بیان کر کے عمر بن عبدالعزیز کی تسلی کر دی، اور دوسری روایت میں ہے کہ عروہ نے ایک اور حدیث بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی جو آگے مذکور ہو گی، عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے اوقات مقرر ہیں اور جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تعلیم دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوقات میں نماز ادا فرماتے تھے، ایک روایت میں ہے کہ اس روز سے عمر بن عبدالعزیز نے کبھی نماز میں دیر نہیں کی، اس سے عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے اوقات کی تحدید کے لئے جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے، اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عملی طور پر سکھایا، اس لئے اس سلسلہ میں کوتاہی مناسب نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 495  
´جبرائیل علیہ السلام کی امامت کا بیان۔`
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے عصر میں کچھ تاخیر کر دی، تو عروہ نے ان سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے، اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی ۱؎ اس پر عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو تم کہہ رہے ہو اسے خوب سوچ سمجھ کر کہو، تو عروہ نے کہا: میں نے بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ابومسعود سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جبرائیل اترے، اور انہوں نے میری امامت کرائی، تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں نمازوں کو گن رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 495]
495 ۔ اردو حاشیہ:
➊حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے نماز عصر کو مستحب وقت سے کچھ مؤخر کیا تھا، نہ کہ کل وقت سے۔ اور یہ ولید بن عبدالملک کے دور کی بات ہے جبکہ آپ اس کی طرف سے مدینے کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ حضرت عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کا وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے حتیٰ کہ وقت بتلانے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام اترے تھے، لہٰذا نماز کی ادائیگی میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔
➋حضرت جبریل علیہ السلام نے دو دن نماز پڑھائی تھی۔ پہلے دن سب نمازیں اول وقت میں اور دوسرے دن آخر وقت میں۔ اس روایت میں اوقات ذکر نہیں کیے گئے کیونکہ مقصد صرف یہ بتلانا تھا کہ جبریل علیہ السلام نے اوقات بتلائے تھے، اوقات کا علم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو پہلے سے تھا۔ ان کے بارے میں منقول ہے کہ مذکورہ روایت سننے کے بعد انہوں نے کبھی نماز میں تاخیر نہیں کی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائي: 6؍241۔ 255]
➌امراء اگر کسی خلاف سنت کام کا ارتکاب کریں تو اہل علم کی ذمے داری ہے کہ ان کی اصلاح کریں اور گاہے گاہے انہیں تنبیہ کرتے رہیں۔
➍عالم دین سے مسئلے کی دلیل طلب کی جا سکتی ہے اور عالم کو چاہیے کہ وہ خالص کتاب و سنت کے دلائل سے سائل کی تشفی کرائے۔
➎اختلاف کے وقت قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
➏خبر واحد حجت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 495   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث668  
´اوقات نماز کا بیان۔`
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کے گدوں پہ بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت عمر بن عبدالعزیز مدینہ منورہ کے امیر تھے، اور ان کے ساتھ عروہ بن زبیر بھی تھے، عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز میں کچھ دیر کر دی تو ان سے عروہ نے کہا: سنیے! جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت فرمائی، تو ان سے عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو کچھ کہہ رہے ہو سوچ سمجھ کر کہو؟ اس پر عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا کہ میں نے اپنے والد ابی مسعود رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 668]
اردو حاشہ:
(1)
قرآن مجید میں نماز کو وقت پر پڑھنے کا حکم ہے جیسے کہ ارشاد ہے کہ ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾  (النساء: 4؍103)
 مومنون پر مقرره اوقات میں نماز ادا کرنا فرض ہے۔
اس کی وضاحت بھی وحی کے ساتھ عملی طور پر کی گئی۔

(2)
اوقات نماز کی تعیین کے لیے جبرئیل علیہ السلام کا ہر نماز کے وقت نازل ہونا نماز کی اور خصوصاً نماز با جماعت کی اہمیت بھی واضح كرتا ہے۔

(3)
اسلامی معاشرے میں بڑے سے بڑا عہدے دار تنقید سے بالا تر نہیں لیکن تنقید کرتے وقت ادب واحترام کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

(4)
اگرمسئلہ واضح نہ ہوتو مسئلہ بتانے والے سے وضاحت طلب کی جاسکتی ہے۔
یہ احترام کے منافی نہیں۔

(5)
اگر کوئی شخص حدیث سن کر کسی اشکال کی وجہ سے اسے تسلیم کرنے میں توقف کرے تو اسے حدیث کا منکر قرار نہیں دینا چاہیے بلکہ اس کے اشکال کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

(6)
حدیث کی سندیں بیان کرنے کا سلسلہ تابعین کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔
جس کے نتیجے میں صحیح اور ضعیف احا دیث میں امتیاز کرنا آسان ہوگیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 668