سنن ابن ماجه
كتاب الأذان والسنة فيه -- کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
1. بَابُ : بَدْءِ الأَذَانِ
باب: اذان کی ابتداء کیسے ہوئی؟
حدیث نمبر: 707
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَشَارَ النَّاسَ لِمَا يُهِمُّهُمْ إِلَى الصَّلَاةِ، فَذَكَرُوا الْبُوقَ، فَكَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ الْيَهُودِ، ثُمَّ ذَكَرُوا النَّاقُوسَ، فَكَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ النَّصَارَى، فَأُرِيَ النِّدَاءَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَطَرَقَ الْأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا،" فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا بِهِ فَأَذَّنَ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَزَادَ بِلَالٌ فِي نِدَاءِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، فَأَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي رَأَى وَلَكِنَّهُ سَبَقَنِي.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اس مسئلہ میں مشورہ کیا کہ نماز کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کیا صورت ہونی چاہیئے، کچھ صحابہ نے بگل کا ذکر کیا (کہ اسے نماز کے وقت بجا دیا جائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہود سے مشابہت کے بنیاد پر ناپسند فرمایا، پھر کچھ نے ناقوس کا ذکر کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی نصاریٰ سے تشبیہ کی بناء پر ناپسند فرمایا، اسی رات ایک انصاری صحابی عبداللہ بن زید اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کو خواب میں اذان دکھائی گئی، انصاری صحابی رات ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم دیا تو انہوں نے اذان دی۔ زہری کہتے ہیں: بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں  «الصلاة خير من النوم» نماز نیند سے بہتر ہے کا اضافہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے، لیکن وہ (آپ کے پاس پہنچنے میں) مجھ سے سبقت لے گئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6866، ومصباح الزجاجة: 261)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/148) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (یہ روایت سنداً ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک روای محمد بن خالد ضعیف ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح ہے، کیونکہ بخاری و مسلم میں آئی ہوئی حدیث کے ہم معنی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف وبعضه صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث707  
´اذان کی ابتداء کیسے ہوئی؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اس مسئلہ میں مشورہ کیا کہ نماز کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کیا صورت ہونی چاہیئے، کچھ صحابہ نے بگل کا ذکر کیا (کہ اسے نماز کے وقت بجا دیا جائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہود سے مشابہت کے بنیاد پر ناپسند فرمایا، پھر کچھ نے ناقوس کا ذکر کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی نصاریٰ سے تشبیہ کی بناء پر ناپسند فرمایا، اسی رات ایک انصاری صحابی عبداللہ بن زید اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کو خواب میں اذان دکھائی گئی، انصاری صحابی رات ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 707]
اردو حاشہ:
(1)
صحابہ کرام کے ہاں یہ اصول مسلم تھا کہ یہودونصاری کی نقل کرنا اچھا کام نہیں۔
اس مسئلہ پر امام ابن تیمیہ ؒ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم في مخالفه اصحاب الحجيم (اردو ترجمہ فکر وعقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے شائع کردہ دارلسلام۔
الریاض لاہور)

میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

(2)
فجر کی اذان میں (اَلصَّلَاةُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم)
 کے اضافے کو بھی رسول اللہ ﷺ کی منظوری حاصل ہے اس لیے یہ بھی سنت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو محذور رضی اللہ عنہ کو اذان سکھاتے ہوئے فرمایا:
اگر صبح کی نماز کی (کی اذان)
ہوتو کہو (اَلصَّلَاةُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم۔
اَلصَّلَاةُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم، اَللهُ اَكْبَرُ اَللهُ اَكْبَر۔
لَااِلٰهَ اِلَّا الله)

 (سنن ابی داود، الصلاۃ، باب کیف الاذان، حدیث: 504، 501، 500)

(3)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت کے بعض حصے کے شواہد بخاری ومسلم میں ہیں۔
غالباً انہی شواہد کی وجہ سے دیگر محققین نے اس روایت کے بعض حصوں کو صحیح قرار دیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 707