سنن ابن ماجه
كتاب الأذان والسنة فيه -- کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
2. بَابُ : التَّرْجِيعِ فِي الأَذَانِ
باب: اذان میں ترجیع کا بیان۔
حدیث نمبر: 708
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ ، وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي مَحْذُورَةَ بْنِ مِعْيَرٍ حِينَ جَهَّزَهُ إِلَى الشَّامِ، فَقُلْتُ لِأَبِي مَحْذُورَةَ: أَيْ عَمِّ إِنِّي خَارِجٌ إِلَى الشَّامِ وَإِنِّي عَنْ تَأْذِينِكَ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا مَحْذُورَةَ، قَالَ: خَرَجْتُ فِي نَفَرٍ، فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْنَا صَوْتَ الْمُؤَذِّنِ وَنَحْنُ عَنْهُ مُتَنَكِّبُونَ، فَصَرَخْنَا َحْكِيهِ نَهْزَأُ بِهِ، فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا قَوْمًا، فَأَقْعَدُونَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" أَيُّكُمُ الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ قَدِ ارْتَفَعَ؟" فَأَشَارَ إِلَيَّ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَصَدَقُوا، فَأَرْسَلَ كُلَّهُمْ وَحَبَسَنِي وَقَالَ لِي:" قُمْ فَأَذِّنْ"، فَقُمْتُ وَلَا شَيْءَ أَكْرَهُ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا مِمَّا يَأْمُرُنِي بِهِ، فَقُمْتُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّأْذِينَ هُوَ بِنَفْسِهِ، فَقَالَ:" قُلْ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ لِي:" ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"، ثُمَّ دَعَانِي حِينَ قَضَيْتُ التَّأْذِينَ، فَأَعْطَانِي صُرَّةً فِيهَا شَيْءٌ مِنْ فِضَّةٍ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى نَاصِيَةِ أَبِي مَحْذُورَةَ، ثُمَّ أَمَرَّهَا عَلَى وَجْهِهِ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ ثُمَّ عَلَى كَبِدِهِ، ثُمَّ بَلَغَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُرَّةَ أَبِي مَحْذُورَةَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَرْتَنِي بِالتَّأْذِينِ بِمَكَّةَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، قَدْ أَمَرْتُكَ"، فَذَهَبَ كُلُّ شَيْءٍ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَرَاهِيَةٍ، وَعَادَ ذَلِكَ كُلُّهُ مَحَبَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمْتُ عَلَى عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ عَامِلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، فَأَذَّنْتُ مَعَهُ بِالصَّلَاةِ عَنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ذَلِكَ مَنْ أَدْرَكَ أَبَا مَحْذُورَةَ عَلَى مَا أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَيْرِيزٍ.
عبداللہ بن محیریز جو یتیم تھے اور ابومحذورہ بن معیر کے زیر پرورش تھے، کہتے ہیں کہ جس وقت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے ان کو سامان تجارت دے کر شام کی جانب روانہ کیا، تو انہوں نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے کہا: چچا جان! میں ملک شام جا رہا ہوں، اور لوگ مجھ سے آپ کی اذان کے سلسلے میں پوچھیں گے، ابومحذورہ نے مجھ سے کہا کہ میں ایک جماعت کے ہمراہ نکلا، ہم راستے ہی میں تھے کہ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے نماز کے لیے اذان دی ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم نے مؤذن کی آواز سنی چونکہ ہم اس (اذان یا اسلام) سے متنفر تھے (کیونکہ ہم کفر کی حالت میں تھے) اس لیے ہم چلا چلا کر اس کی نقلیں اتارنے اور اس کا ٹھٹھا کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو بھیجا، انہوں نے ہمیں پکڑ کر آپ کے سامنے حاضر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں وہ کون شخص ہے جس کی آواز ابھی میں نے سنی کافی بلند تھی، سب لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، اور وہ سچ بولے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو چھوڑ دیا اور صرف مجھے روک لیا، اور مجھ سے کہا: کھڑے ہو اذان دو، میں اٹھا لیکن اس وقت میرے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس چیز سے جس کا آپ مجھے حکم دے رہے تھے زیادہ بری کوئی اور چیز نہ تھی، خیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا، آپ نے خود مجھے اذان سکھانی شروع کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  کہو: «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله»، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: بآواز بلند کہو: «أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح حي على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله»، جب میں اذان دے چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی، پھر اپنا ہاتھ ابومحذورہ کی پیشانی پر رکھا اور اسے ان کے چہرہ، سینہ، پیٹ اور ناف تک پھیرا، پھر فرمایا: اللہ تمہیں برکت دے اور تم پر برکت نازل فرمائے، پھر میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے مکہ میں اذان دینے کا حکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تمہیں حکم دیا ہے بس اس کے ساتھ ہی جتنی بھی نفرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی وہ جاتی رہی، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بدل گئی، ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عامل عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، ان کی گورنری کے زمانہ میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نماز کے لیے اذان دی۔ عبدالعزیز بن عبدالملک کہتے ہیں کہ جس طرح عبداللہ بن محیریز نے یہ حدیث مجھ سے بیان کی اسی طرح اس شخص نے بھی بیان کی جو ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے ملا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 3 (379)، سنن ابی داود/الصلاة 28 (502)، سنن الترمذی/الصلاة 26 (191، 192)، سنن النسائی/الأذان 3 (630)، 4 (631)، (تحفة الأشراف: 12169)، مسند احمد (3/408، 409)، سنن الدارمی/الصلاة 7 (1232) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا حال معلوم ہوتا ہے کہ آپ مخالفین کے ساتھ کس طرح نرمی اور شفقت سے برتاؤ کرتے تھے کہ ان کا دل خود پسیج جاتا، اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوتے، جو کوئی برائی کرے اس کے ساتھ بھلائی کرنا یہی اس کو شرمندہ کرنا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 633  
´اذان پر اجرت کا جواز`
«. . . ثُمَّ دَعَانِي حِينَ قَضَيْتُ التَّأْذِينَ، فَأَعْطَانِي صُرَّةً فِيهَا شَيْءٌ مِنْ فِضَّةٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِالتَّأْذِينِ بِمَكَّةَ . . .»
. . . پھر جس وقت میں نے اذان پوری کر لی تو آپ نے مجھے بلایا، اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے مکہ میں اذان دینے پر مامور فرما دیجئیے . . . [سنن نسائي/كتاب الأذان: 633]

فقہ الحدیث:
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [379] اور امام ابن حبان [1680] رحمہما اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں اذان کہنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے چاندی دینے کا ذکر ہے۔
امام، ابوبکر، احمد بن حسین، بیہقی رحمہ اللہ [384۔ 458ھ] نے اس حدیث کو مؤذن کی اجرت کے جواز کی دلیل بنایا ہے۔ [السنن الكبريٰ:631/1، دارالكتب العلمية، بيروت، 2003ء]
شاید کوئی اس استدلال سے اختلاف کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عنایت کی گئی چاندی کو تالیف قلب قرار دے، لیکن صریح دلائل کی روشنی میں اذان کی اجرت کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔

یار رہے کہ بغیر اجرت موذن مقرر کرنے والی جس حدیث سے بعض لوگوں نے دینی امور پر اجرت کے ناجائز و حرام ہونے کا استدلال کیا ہے، اسلاف امت و فقہائے اسلام نے اسے بھی کراہت پر محمول کیا ہے، حرمت پر نہیں، کیوں کہ اس میں حرمت والا کوئی اشارہ بھی نہیں۔
وہ حدیث اور اس کے حوالے سے اسلاف امت کا فہم ملاحظہ فرمائیں: [سنن ابی داود:531]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 79، حدیث/صفحہ نمبر: 32   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث708  
´اذان میں ترجیع کا بیان۔`
عبداللہ بن محیریز جو یتیم تھے اور ابومحذورہ بن معیر کے زیر پرورش تھے، کہتے ہیں کہ جس وقت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے ان کو سامان تجارت دے کر شام کی جانب روانہ کیا، تو انہوں نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے کہا: چچا جان! میں ملک شام جا رہا ہوں، اور لوگ مجھ سے آپ کی اذان کے سلسلے میں پوچھیں گے، ابومحذورہ نے مجھ سے کہا کہ میں ایک جماعت کے ہمراہ نکلا، ہم راستے ہی میں تھے کہ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے نماز کے لیے اذان دی ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم نے مؤذن کی آواز سنی چونکہ ہم اس (اذان یا اسلام) سے متنفر تھے (کیونکہ ہم کفر کی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 708]
اردو حاشہ:
(1)
یتیم بچوں کی کفالت ایک عظیم نیکی ہے جس پر جنت میں رسول اللہ ﷺ کا پڑوس ملنے کی بشارت دی گئی ہے۔
کفالت میں جس طرح جسمانی ضروریات خوراک، لباس وغیرہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔
اسی طرح روحانی ضروریات یعنی دین کی تعلیم اور اخلاق حسنہ کی تربیت بھی ضروری ہے۔

(2)
یہ نبی ﷺ کی حکمت کا کمال ہے کہ جہاں بھی جوہر قابل نظر آیا اس کی صلاحیتوں کو نکھار کر اس سے دین کا کام لے لیا۔
ایک اچھے داعی کو بھی عوام میں جوہر قابل کی پہچان کا ملکہ حاصل ہونا چاہیے اور ایسے افراد کی مناسب تربیت کرکے انھیں اسلام کا خادم بنانا چاہیے۔

(3)
رسول اللہ ﷺ  نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی بلند آواز سن کر یہ فیصلہ کیا کہ اسے مؤذن بنادیا جائے۔
اس طرح نادان بچوں اور غافل نوجوانوں کو بھی قریب کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ان کی اصلاح وتربیت کی جائے تاکہ دوبارہ غلطی نہ کریں اور ان کا کردار بہتر ہوجائے۔

(5)
بچوں کے جسم پر شفقت سے ہاتھ پھیرنا ان کے دل میں محبت پیداکرنا ہے۔
بشرطیکہ کسی قسم کی غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو جیسے بڑے اور چھوٹے کی عمر میں کافی فرق نہ ہونے کی صورت میں ایسے شکوک وشبہات پیدا ہوسکتے ہیں جن کا نتیجہ الزامات اور بدنامی کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔

(6)
تربیت میں انفرادی توجہ کی بھی خاص اہمیت ہے تاکہ ہر فرد کی صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں۔

(7)
بچوں کو حوصلہ افزائی کے لیے مناسب انعام دینا بھی بہت مفید ہے یہ انعام نقد بھی ہوسکتا ہے کسی عام استعما ل کی چیز کی صورت میں اور دعا یا حوصلہ افزائی اور تعریف کے چند کلمات کی صورت میں بھی۔

(8)
اگر کسی عہدے کی اہلیت رکھنے والا اس عہدے کی درخواست پیش کرے تو اسے وہ ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے اگر چہ عہدے کا لالچ رکھنا اچھی بات نہیں،
(9)
اذان میں شہادتین کے کلمات دودوبار کہنے کے بعد دوسری بار پھر دوبار کہنا ترجیع کہلاتا ہے۔
اور یہ سنت ہے۔
عرف عام میں اسے دوہری اذان کہتے ہیں۔
مؤذن چاہے اکہری اذان (بلا ترجیع)
کہ لے، چاہے دہری اذان (ترجیع کے ساتھ)
کہہ لے، دونوں طرح جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 708