سنن ابن ماجه
كتاب المساجد والجماعات -- کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل
14. بَابُ : الْمَشْيِ إِلَى الصَّلاَةِ
باب: نماز کے لیے چل کر مسجد جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 778
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الْمُوَفَّقِ أَبُو الْجَهْمِ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى الصَّلَاةِ فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِينَ عَلَيْكَ، وَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هَذَا، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا وَلَا بَطَرًا وَلَا رِيَاءً وَلَا سُمْعَةً، وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ سُخْطِكَ، وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِكَ، فَأَسْأَلُكَ أَنْ تُعِيذَنِي مِنَ النَّارِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، أَقْبَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ، وَاسْتَغْفَرَ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفِ مَلَكٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلے اور یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أسألك بحق السائلين عليك وأسألك بحق ممشاي هذا فإني لم أخرج أشرا ولا بطرا ولا رياء ولا سمعة وخرجت اتقاء سخطك وابتغاء مرضاتك فأسألك أن تعيذني من النار وأن تغفر لي ذنوبي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» اے اللہ! میں تجھ سے اس حق ۱؎ کی وجہ سے مانگتا ہوں جو مانگنے والوں کا تجھ پر ہے، اور اپنے اس چلنے کے حق کی وجہ سے، کیونکہ میں غرور، تکبر، ریا اور شہرت کی نیت سے نہیں نکلا، بلکہ تیرے غصے سے بچنے اور تیری رضا چاہنے کے لیے نکلا، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے جہنم سے پناہ دیدے، اور میرے گناہوں کو معاف کر دے، اس لیے کہ گناہوں کو تیرے علاوہ کوئی نہیں معاف کر سکتا تو اللہ تعالیٰ اس کی جانب متوجہ ہو گا، اور ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے مغفرت کریں گے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4232، ومصباح الزجاجة: 293)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/21) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں عطیہ العوفی، فضیل بن مرزوق اور فضل بن موفق سب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: ا لضعیفہ: 24)

وضاحت: ۱؎: اگرچہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی ایسا حق لازم نہیں ہے جس کا کرنا اس کو ضروری ہو کیونکہ وہ ہمارا مالک و مختار ہے جو چاہے سو کرے، اس سے کسی کی مجال نہیں کہ کچھ پوچھ بھی سکے، پر ہمارے مالک نے اپنی عنایت اور فضل سے بندوں کے حق اپنے ذمے لئے ہیں، جن کو وہ ضرور پورا کرے گا، اس لئے کہ وہ سچا ہے، اس کا وعدہ بھی سچا ہے، اہل سنت کا یہی مذہب ہے۔ معتزلہ اپنی گمراہی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر نیک بندوں کو جنت میں لے جانا، اور بروں کو سزا دینا واجب ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا وعدہ کیا ہے، لیکن واجب اس پر کچھ نہیں ہے، نہ کسی کا کوئی زور بھی اس پر چل سکتا ہے، نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے سامنے کوئی ذرا بھی چون وچرا کر سکے، اگر وہ چاہے تو دم بھر میں سب بدکاروں اور کافروں اور منافقوں کو بخش دے، اور ان کو جنت میں لے جائے، اور جتنے نیک اور عابد اور متقی بندے ہیں، ان سب کو جہنم میں ڈال دے، غرض یہ سب کچھ اس کی قدرت کے لحاظ سے ممکن ہے، اور اس کو ایسا اختیار ہے، اگرچہ ایسا ظہور میں نہ آئے گا، کیونکہ اس کا وعدہ سچا ہے، اور اس نے وعدہ کیا ہے کہ نیک بندوں کو میں جنت میں لے جاؤں گا، اور کافروں کو جہنم میں، ایسا ہی ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف