سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
6. بَابُ : الْقِرَاءَةِ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کے دن فجر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 821
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُخَوَّلٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ: الم تَنْزِيلُ وَ هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں  «الم تنزيل السجدة» (سورۃ سجدۃ)، اور «هل أتى على الإنسان» (سورۃ الدہر) پڑھتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجمعة 10 (879)، سنن ابی داود/الصلاة 218 (1074، 1075)، سنن الترمذی/الصلاة 258 (520)، سنن النسائی/الافتتاح 47 (957)، الجمعة 38 (1422)، (تحفة الأشراف: 5613)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/226، 307، 328، 334) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جمعہ کو نماز فجر میں ان دونوں سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے «كان يقرأ» کے صیغے سے اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مواظبت کا پتہ چلتا ہے، بلکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں جس کی تخریج طبرانی نے کی ہے، اس پر آپ کی مداومت کی تصریح آئی ہے، اس میں شاید یہ حکمت ہو گی کہ ان دونوں سورتوں میں انسان کی پیدائش، خاتمہ، آدم، جنت اور جہنم کا ذکر ہے، اور قیامت کا حال ہے، اور یہ سب باتیں جمعہ کے دن ہونے والی ہیں، اور کچھ ہو چکی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 957  
´جمعہ کے دن فجر میں قرأت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر میں «تنزیل سجدہ» (سورۃ السجدہ) اور «ھل أتی علی الإنسان» (سورۃ دھر) پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 957]
957 ۔ اردو حاشیہ: ان دو سورتوں کو جمعۃ المبارک کے دن صبح کی نماز میں پڑھنا مستحب ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان سورتوں کے علاوہ کوئی اور سورت پڑھنی درست نہیں، اور سورتیں پڑھنا بھی جائز ہے لیکن اکثر عمل یہی ہونا چاہیے تاکہ فرضیت کا تاثر ختم ہو جائے۔ امام طبرانی رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت بیان کرتے ہیں جس میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل پر دوام کا بیان ہے کہ آپ کا ہمیشہ یہی معمول تھا۔ دیکھیے: [المعجم الصغیر للطبراني، حدیث: 956]
مگر دوام اور ہمیشگی والے الفاظ ضعیف ہیں۔ دیکھیے: (بلوغ المرام، حدیث: 228 کی تحقیق)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 957   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث821  
´جمعہ کے دن فجر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم تنزيل السجدة» (سورۃ سجدۃ)، اور «هل أتى على الإنسان» (سورۃ الدہر) پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 821]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ائمہ مساجد کو چاہیے کہ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں یہ سورتیں پڑھا کریں۔
اگرچہ کوئی اور سورت پڑھنے سے بھی نماز درست ہوگی۔
لیکن ان سورتوں کا پڑھنا مسنون ہے۔

(2)
اس میں شاید یہ حکمت ہوگی کہ ان دونوں صورتوں میں انسان کی پیدائش، خاتمہ، آدم علیہ السلام، جنت، دوزخ اور قیامت کا ذکر ہے۔
یہ سب باتیں جمعہ کے دن ہونے والی ہیں اور کچھ ہوچکی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 821