سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
11. بَابُ : الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ
باب: امام کے پیچھے قرات کا حکم۔
حدیث نمبر: 842
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: أَقْرَأُ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ، فَقَالَ:" سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفِي كُلِّ صَلَاةٍ قِرَاءَةٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَ هَذَا".
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان سے پوچھا اور کہا: جس وقت امام قراءت کر رہا ہو کیا میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ تو انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا ہر نماز میں قراءت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، یہ سن کر لوگوں میں سے ایک شخص بولا: اب تو قراءت واجب ہو گئی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10944، ومصباح الزجاجة: 308)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الافتتاح 31 (924)، مسند احمد (1/448) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس حدیث کی سند میں معاویہ بن یحییٰ الصدفی ضعیف ہیں)
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 924  
´امام کی قرأت مقتدی کے لیے کافی ہے۔`
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا ہر نماز میں قرآت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! (اس پر) انصار کے ایک شخص نے کہا: یہ (قرآت) واجب ہو گئی، تو ابو الدرداء رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ ہوئے اور حال یہ تھا کہ میں ان سے سب سے زیادہ قریب تھا، تو انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ امام جب لوگوں کی امامت کرے تو (امام کی قرآت) انہیں بھی کافی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنا غلط ہے، یہ تو صرف ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا قول ہے، اور اسے اس کتاب کے ساتھ انہوں نے نہیں پڑھا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 924]
924 ۔ اردو حاشیہ: امام نسائی رحمہ اللہ نے صراحت فرمائی ہے کہ متوجہ ہونے والے اور خیال ظاہر کرنے والے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ ہیں نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس قول میں بھی فاتحہ سے زائد قرأت میں کفایت مراد ہو گی۔ (کفایت والی بحث کے لیے دیکھیے حدیث: 911) علاوہ ازیں یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ ذیل میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 924