سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
22. بَابُ : الْجُلُوسِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ
باب: دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 894
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُقْعِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء نہ کرو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 93 (282)، (تحفة الأشراف: 10041)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/82، 146) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں الحارث روای ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4787)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اقعاء: دونوں پنڈلیاں کھڑی کر کے سرین اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر بیٹھنے کو اقعاء کہتے ہیں، اور دونوں قدم کھڑا کر کے اس پر بیٹھنے کو بھی اقعاء کہا جاتا ہے، ممانعت پہلی صورت کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 282  
´سجدوں کے درمیان اقعاء کی کراہت کا بیان۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی! میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے کرتا ہوں، اور وہی چیز ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہوں۔ تم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء ۱؎ نہ کرو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 282]
اردو حاشہ:
1؎:
اقعاء کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم یہ ہے کہ دونوں سرین زمین سے چپکے ہوں اور دونوں رانیں کھڑی ہوں اور دونوں ہاتھ زمین پر ہوں یہی اقعاء کلب ہے اور یہی وہ اقعاء ہے جس کی ممانعت آئی ہے،
دوسری قسم یہ ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان قدموں کو کھڑا کر کے سرین کو دونوں ایڑیوں پر رکھ کر بیٹھے،
اس صورت کا ذکر ابن عباس کی حدیث میں ہے جس کی تخریج مسلم اور ابو داؤد نے بھی کی ہے،
اور یہ صورت جائزہے،
بعض نے اسے بھی منسوخ شمار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ابن عباس کو اس نسخ کا علم نہ ہو سکا ہو،
لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق ممکن ہے،
صحیح قول یہ ہے کہ اقعاء کی یہ صورت جائز ہے اور افضل سرین پر بیٹھنا ہے اس لیے کہ زیادہ تر آپ کاعمل اسی پر رہا ہے اور کبھی کبھی آپ نے جو اقعاء کیا وہ یا تو کسی عذر کی وجہ سے کیا ہو گا یا بیان جواز کے لیے کیا ہو گا۔

2؎:
حارث اعور کی وجہ سے یہ روایت تو ضعیف ہے مگر اس باب کی دیگر احادیث صحیح ہیں جن کا ذکر مؤلف نے وفی الباب کر کے کیا ہے۔

نوٹ:
(سند میں حارث اعور سخت ضعیف ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 282