صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
19. بَابُ قَدْرِ كَمْ بَيْنَ السَّحُورِ وَصَلاَةِ الْفَجْرِ:
باب: سحری اور فجر کی نماز میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا۔
حدیث نمبر: 1921
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسَّحُورِ؟ قَالَ: قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1694  
´سحری دیر سے کھانے کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا: سحری اور نماز کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ کہا: پچاس آیتیں پڑھنے کی مقدار ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1694]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر چہ سحری کا کھا نا صبح صادق سے کا فی پہلے بھی کھا یا جا سکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ را ت کے آخری حصے میں صبح صادق سے تھو ڑی دیر پہلے کھا یا جا ئے
(2)
  فجر کی نما ز اول وقت میں ادا کر نا افضل ہے رسول اللہ ﷺ نے سحری کے بعد مختصر وقفہ دے کر فجر کی نما ز ادا کی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1694   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 703  
´سحری تاخیر سے کھانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی، پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، انس کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اس کی مقدار کتنی تھی؟ ۱؎ انہوں نے کہا: پچاس آیتوں کے (پڑھنے کے) بقدر ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 703]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی ان دونوں کے بیچ میں کتنا وقفہ تھا۔

2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ سحری بالکل آخری وقت میں کھائی جائے،
یہی مسنون طریقہ ہے تاہم صبح صادق سے پہلے کھا لی جائے اور یہ وقفہ پچاس آیتوں کے پڑھنے کے بقدر ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 703   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1921  
1921. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ سحری کھائی پھر آپ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ حضرت انس ؓ نے دریافت کیا کہ اذان فجر اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا؟حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا: پچاس آیات کی تلاوت کرنے کے برابر وقفہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1921]
حدیث حاشیہ:
سند میں حضرت قتادہ بن دعامہ کا نام آیا ہے، ان کی کنیت ابوالخطاب السدوی ہے، نابینا اور قوی الحافظہ تھے، بکر بن عبداللہ مزنی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ جس کا جی چاہے اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ قوی الحافظہ بزرگ کی زیارت کرے وہ قتادہ کو دیکھ لے۔
خود قتادہ کہتے ہیں کہ جو بات بھی میرے کان میں پڑتی ہے اسے قلب فوراً محفوظ کر لیتا ہے۔
عبداللہ بن سرجس اور انس ؓ اور بہت سے دیگر حضرات سے روایت کرتے ہیں۔
70 ھ میں انتقال فرمایا۔
رحمة اللہ علیه (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1921   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1921  
1921. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ سحری کھائی پھر آپ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ حضرت انس ؓ نے دریافت کیا کہ اذان فجر اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا؟حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا: پچاس آیات کی تلاوت کرنے کے برابر وقفہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1921]
حدیث حاشیہ:
(1)
معلوم ہوا کہ سحری دیر سے کرنی چاہیے۔
یہ بات خلاف سنت ہے کہ آدھی رات کو انسان سحری کھا کر سو جائے۔
مسنون یہ ہے کہ طلوع فجر سے تھوڑا وقت پہلے سحری سے فراغت ہو، پھر نماز فجر کی تیاری میں مصروف ہو جانا چاہیے۔
حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں:
ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کی تو دن کے روشن ہونے تک سحری کھاتے رہے، البتہ سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔
(سنن النسائي، الصیام، حدیث: 2154)
یہ روایت حضرت زید بن ثابت ؓ والی حدیث کے مخالف ہے۔
علماء نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں۔
راجح بات یہ ہے کہ حضرت حذیفہ کی روایت مرفوعا صحیح نہیں، اس لیے صحیح دلائل کے مخالف نہیں ہو سکتی۔
اور اگر اسے صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ منسوخ ہو گی اور حضرت زید کی روایت اور اس موضوع کے دیگر دلائل اس کے ناسخ ہوں گے۔
(ذخیرةالعقبیٰ شرح سنن النسائي: 350/20) (2)
قرآن کریم نے سفید دھاگے کے نمایاں ہونے سے روزہ فرض کیا ہے، اس کے بعد کھانا پینا حرام ہے تو اس کے بعد سحری کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ الغرض حضرت حذیفہ ؓ کی مذکورہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے، اس کے علاوہ حضرت زید ؓ کی حدیث پر شیخین نے اتفاق کیا ہے۔
حدیث میں ہے کہ ابن ام مکتوم کی اذان تک کھانے پینے کی اجازت ہے، الغرض انسان کو نماز فجر سے قبل سحری سے فراغت حاصل کر لینی چاہیے۔
(فتح الباري: 178/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1921