سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
56. بَابُ : الْقِبْلَةِ
باب: قبلہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1010
حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ عَمْرٍو الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ:" صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَصُرِفَتِ الْقِبْلَةُ إِلَى الْكَعْبَةِ بَعْدَ دُخُولِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ بِشَهْرَيْنِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ أَكْثَرَ تَقَلُّبَ وَجْهِهِ فِي السَّمَاءِ، وَعَلِمَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَهْوَى الْكَعْبَةَ، فَصَعِدَ جِبْرِيلُ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ وَهُوَ يَصْعَدُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، يَنْظُرُ مَا يَأْتِيهِ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ سورة البقرة آية 144، فَأَتَانَا آتٍ فَقَالَ: إِنَّ الْقِبْلَةَ قَدْ صُرِفَتْ إِلَى الْكَعْبَةِ، وَقَدْ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسٍ وَنَحْنُ رُكُوعٌ، فَتَحَوَّلْنَا، فَبَنَيْنَا عَلَى مَا مَضَى مِنْ صَلَاتِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا جِبْرِيلُ، كَيْفَ حَالُنَا فِي صَلَاتِنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟" فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ سورة البقرة آية 143".
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ مہینے تک بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز ادا کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے دو مہینہ بعد قبلہ خانہ کعبہ کی جانب تبدیل کر دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت المقدس کی جانب نماز پڑھتے تو اکثر اپنا چہرہ آسمان کی جانب اٹھاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے دل کا حال جان لیا کہ آپ خانہ کعبہ کی جانب رخ کرنا پسند فرماتے ہیں، ایک بار جبرائیل علیہ السلام اوپر چڑھے، آپ ان کی طرف نگاہ لگائے رہے، وہ آسمان و زمین کے درمیان اوپر چڑھ رہے تھے، آپ انتظار میں تھے کہ جبرائیل علیہ السلام کیا حکم لاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «قد نرى تقلب وجهك في السماء» (سورۃ البقرہ: ۱۴۴)، ہمارے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا: قبلہ کعبہ کی طرف بدل دیا گیا، ہم دو رکعتیں بیت المقدس کی جانب پڑھ چکے تھے، اور رکوع میں تھے، ہم اسی حالت میں خانہ کعبہ کی جانب پھر گئے، ہم نے اپنی پچھلی نماز پر بنا کیا اور دو رکعتیں اور پڑھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل ہماری ان نماز کا کیا حال ہو گا جو ہم نے بیت المقدس کی جانب پڑھی ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «وما كان الله ليضيع إيمانكم» اللہ تعالیٰ تمہاری نماز کو ضائع کرنے والا نہیں (سورة البقرة: 143) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1910، ومصباح الزجاجة: 363)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التفسیر 12 (4492)، صحیح مسلم/المساجد 2 (525)، سنن الترمذی/الصلاة 138 (340)، سنن النسائی/الصلاة 22 (489)، القبلة 1 (743) (منکر)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو بکر بن عیاش سئ الحفظ ہیں، اس لئے تحویل قبلہ کے بارے میں 18 مہینہ کا ذکر اور یہ کہ مدینہ جانے کے دو ماہ بعد تحویل قبلہ ہوا، یہ چیز شاذ اور ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: فتح الباری 1/97، البانی صاحب نے بھی انہیں زیادات کی وجہ سے حدیث پر ''منکر'' کا حکم لگایا ہے، ورنہ اصل حدیث صحیحین میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے بیت المقدس کے طرف (16) یا (17) مہینے تک صلاة پڑھی... الخ، اسی واسطے بوصیری نے حدیث کے ابتدائی دو فقرے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ اس کی سند صحیح ہے، اور رجال ثقات ہیں، اور بخاری و مسلم وغیرہ نے اس طریق سے مذکور نص کے علاوہ بقیہ حدیث روایت کی ہے)

وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کو کعبہ کی طرف ہونا پسند کرتے تھے، اس خیال سے کہ عربوں کی عبادت گاہ اور مرکز وہی تھا، اور اس میں اس بات کی امید اور توقع تھی کہ عرب جلد اسلام کو قبول کر لیں گے، اور یہودی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن تھے، ان کا قبلہ بیت المقدس تھا، اس وجہ سے بھی آپ کو ان کی موافقت پسند نہیں تھی، اور یہ آپ کا کمال ادب تھا کہ اللہ تعالیٰ سے قبلے کے بدلنے کا سوال نہیں کیا، بلکہ دل ہی میں یہ آرزو لئے رہے، اس خیال سے کہ اللہ رب العزت دلوں کی بات بھی خوب جانتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: منكر فيه زيادات كثيرة على رواية ق
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1010  
´قبلہ کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ مہینے تک بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز ادا کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے دو مہینہ بعد قبلہ خانہ کعبہ کی جانب تبدیل کر دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت المقدس کی جانب نماز پڑھتے تو اکثر اپنا چہرہ آسمان کی جانب اٹھاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے دل کا حال جان لیا کہ آپ خانہ کعبہ کی جانب رخ کرنا پسند فرماتے ہیں، ایک بار جبرائیل علیہ السلام اوپر چڑھے، آپ ان کی طرف نگاہ لگائے رہے، وہ آسمان و زمین کے درمیان اوپر چڑھ رہے تھے، آپ انتظار میں تھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1010]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ روایت سخت ضعیف (بلکہ منکر)
ہے۔
خود اس حدیث کےالفاظ میں بھی تعارض ہے پہلے جملے میں اٹھارہ مہینے اور دوسرے جملے میں دو مہینے کی مدت بیان کی گئی ہے۔

(2)
یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی مروی ہے۔
لیکن اس میں اٹھارہ مہینے کی بجائے سولہ یا سترہ مہینے کےالفاظ ہیں۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الإیمان، باب الصلاۃ من الإیمان، حدیث: 40)
 اور بخاری کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
کیونکہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں اپنے گھر سے 27 صفر کو اور غار ثور سے یکم ربیع الاول کو روانہ ہوئے تھے۔
اور 8 ربیع الاول کو قباء میں تشریف فرما ہوئے جبکہ تحویل قبلہ کا حکم دوسرے سال رجب کے وسط میں نازل ہوا۔
اس طرح یہ درمیانی مدت سولہ ماہ اور کچھ دن بنتی ہے۔
واللہ اعلم۔

(3)
قبلے کی تبدیلی کے بعد نبی اکرمﷺ نے کعبہ کی طرف منہ کرکے جو نماز سب سے پہلے ادا کی وہ نماز عصر تھی۔ (حوالہ مذکورہ بالا)

(4)
انصار کا نماز کے دوران میں حکم معلوم ہونے پر فوراً کعبہ کی طرف رخ کرلینے کا ذکر بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ (حوالہ مذکورہ بالا)

(5)
ایک قابل اعتماد آدمی کی بیان کردہ خبر یا حدیث پراعتماد کر کے عمل کرلینا چاہیے۔

(6)
اگر کوئی شخص اپنے یقین کے مطابق قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہا ہو۔
پھر اسے نماز کےدوران میں معلوم ہوجائے کہ قبلہ کا رخ دوسری طرف ہے۔
تو نماز کے دوران ہی ادھر رخ کرلینا چاہے۔
اس کی پہلی نماز درست ہے۔
دہرانے کی ضرورت نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1010