سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
76. بَابُ : كَمْ يَقْصُرُ الصَّلاَةَ الْمُسَافِرُ إِذَا أَقَامَ بِبَلْدَةٍ
باب: جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 1073
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ السَّائِب بْنَ يَزِيدَ مَاذَا سَمِعْتَ فِي سُكْنَى مَكَّةَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثًا لِلْمُهَاجِرِ بَعْدَ الصَّدَرِ".
عبدالرحمٰن بن حمید زہری کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید سے پوچھا کہ آپ نے مکہ کی سکونت کے متعلق کیا سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہاجرین کو منٰی سے لوٹنے کے بعد تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/مناقب الانصار 47 (3933)، صحیح مسلم/الحج81 (1352)، سنن ابی داود/الحج92 (2022)، سنن الترمذی/الحج 103 (949)، سنن النسائی/تقصیرالصلاة 4 (1455، 1456)، (تحفة الأشراف: 11008)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/339، 5/52)، سنن الدارمی/الصلاة 180 (1553) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مہاجر وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو تین دن سے زیادہ مکہ میں رہنے کی اجازت نہ دی، اس حدیث کا تعلق ترجمہ باب سے معلوم نہیں ہوتا مگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب مہاجرین کو جو کہ مکہ میں مسافر تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن رہنے کی اجازت دی، تو معلوم ہوا کہ تین دن کی اقامت سے سفر کا حکم باطل نہیں ہوتا، پس اگر کوئی مسافر کسی شہر میں تین دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو قصر کرے، اور اس مسئلہ میں علماء کا بہت اختلاف ہے لیکن اہل حدیث نے اس کو اختیار کیا ہے کہ اگر تردد و شک کے ساتھ مسافر کو کہیں ٹھہرنے کا اتفاق ہو تو بیس دن تک قصر کرتا رہے، اس کے بعد پوری نماز ادا کرے، کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیس راتوں تک کی اقامت میں قصر کا حکم دیا، اس واسطے کہ قصر حالت سفر میں مشروع تھا، اور جب اقامت کی تو سفر نہ رہا، اور اگر یقین کے ساتھ مسافر کہیں ٹھہرنے کا ارادہ کرے، تو اگر چار دن یا زیادہ کی اقامت کی نیت کرے، تو چار دن کے بعد نماز پوری پڑھے، اور جو چار دن سے کم رہنے کی نیت کرے تو قصر کرے، یہ حنبلی مذہب کا مشہور مسئلہ ہے، اور دلیل اس کی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو مکہ میں تشریف لائے، اور ساتویں دن تک قیام فرمایا، اور آٹھویں تاریخ کی صبح کو نماز فجر پڑھ کر منیٰ تشریف لے گئے، اور چار دنوں میں مکہ میں قصر کرتے رہے، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں انیس دن تک نماز قصر ادا کی (صحیح البخاری)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت کی حد چار دن نہیں ہے، سنن ابی داود (۱۲۳۵) میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تبوک میں بیس دن تک اقامت رہی، اور قصر پڑھتے رہے، مختلف احادیث میں مختلف مدتوں کے ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی تعارض کی بات ہے، رواۃ نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق بیان کیا، راجح قول یہی ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی نیت نہ کر ے نماز کو قصر کرے اور جمع بھی، جب تک کہ اقامت کی نیت نہ کر ے اور سفر کو ختم نہ کر دے، شیخ الإسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے قصر و افطار اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اقامت اور سکونت نہ اختیار کر لے، اور چند دن کی اقامت کی نیت سے مقیم اور مسافر کے درمیان فرق و تمیز شرع اور عرف میں غیر معروف چیز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1073  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
عبدالرحمٰن بن حمید زہری کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید سے پوچھا کہ آپ نے مکہ کی سکونت کے متعلق کیا سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہاجرین کو منٰی سے لوٹنے کے بعد تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1073]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے استنباط کیاگیا ہے۔
کہ تین دن سے زیادہ کسی مقام پر ٹھرنا وہاں رہائش کے حکم میں ہے۔
مہاجرین کو دوبارہ مکہ میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہ تھی۔
تا کہ ان کی ہجرت کا ثواب قائم رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تین دن ٹھرنے کی اجازت دی۔
اس کامطلب ہے کہ تین دن ٹھرنا مقیم ہونے کے حکم میں نہیں۔
چنانچہ کوئی مسافر کسی مقام پر تین دن ٹھرے تو نماز قصرادا کرے۔
اور بعض کے نزدیک یہ مدت چار دن ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1073   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 949  
´منیٰ سے لوٹنے کے بعد مکہ اور قریش کے مہاجرین۔`
علاء بن حضرمی رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہاجر اپنے حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد مکے میں تین دن ٹھہر سکتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 949]
اردو حاشہ: 1؎:
پہلے منیٰ سے لوٹنے کے بعدمہاجرین کی مکہ میں اقامت جائز نہیں تھی،
بعدمیں اسے جائز کردیا گیا اورتین دن کی تحدید کردی گئی،
اس سے زیادہ کی اقامت اس کے لیے جائزنہیں کیونکہ اس نے اس شہرکواللہ کی رضا کے لیے چھوڑدیاہے لہذا اس سے زیادہ وہ وہاںقیام نہ کرے،
ورنہ یہ اس کے واپس آجانے کے مشابہ ہوگا۔
(یہ مدینے کے مہاجرین مکہ کے لیے خاص تھا)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 949   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2022  
´مکہ میں اقامت کی مدت کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن حمید سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو سائب بن یزید سے پوچھتے سنا: کیا آپ نے مکہ میں رہائش اختیار کرنے کے سلسلے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے ابن حضرمی نے خبر دی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: مہاجرین کے لیے حج کے احکام سے فراغت کے بعد تین دن تک مکہ میں ٹھہرنے کی اجازت ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2022]
فوائد ومسائل:

تکمیل حج کے بعد مہاجرین مدینہ کے لئے بالخصوص پابندی تھی کہ جس شہر کو انہوں نے اللہ کی رضا کے لئے چھوڑ دیا ہے وہاں کسی طرح اقامت نہ کریں تاکہ ہجرت کے اجروثواب میں کمی نہ ہو۔


امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیث سے قیاس فرماتے ہیں۔
کہ مسافر اگر کہیں تین دن سے زیادہ اقامت کی نیت کرلے تو وہاں کا مقیم سمجھا جائے گا۔
اس لئے اسے نماز پوری پڑھنی چاہیے۔
(کتاب الام للشافعی رحمۃ اللہ علیہ) گویا اس فرمان نبوی ﷺسے مدت سفر کی تعین پر بھی استدلال کیا گیا ہے۔
جس کی تایئد نبی کریمﷺکےعمل سے بھی ہوتی ہے۔
(تفصیل کےلئے دیکھئے۔
مسنون نماز ازحافظ صلاح الدین یوسف)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2022