سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
77. بَابُ : مَا جَاءَ فِيمَنْ تَرَكَ الصَّلاَةَ
باب: تارک نماز کے گناہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1080
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَيْسَ بَيْنَ الْعَبْدِ وَالشِّرْكِ إِلَّا تَرْكُ الصَّلَاةِ، فَإِذَا تَرَكَهَا فَقَدْ أَشْرَكَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے اور شرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے، جب اس نے نماز چھوڑ دی تو شرک کیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1681، ومصباح الزجاجة: 381) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں یزید بن أبان الرقاشی ضعیف ہیں، لیکن دوسری احادیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 574، مصباح الزجاجة: 384 بتحقیق عوض الشہری)

وضاحت: ۱؎: مشرک اور کافر دونوں کا حکم ایک ہے، دونوں جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، معاذ اللہ! اتنی صاف حدیثوں کو دیکھ کر بھی کوئی نماز ترک کر دے تو اس سے زیادہ بدبخت و بدنصیب کون ہو گا کہ مشرک اور کافر ہو گیا، اور دین محمدی سے نکل گیا، «أعاذنا الله» !

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1080  
´تارک نماز کے گناہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے اور شرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے، جب اس نے نماز چھوڑ دی تو شرک کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1080]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرنا شرک ہے۔
جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس نے اللہ کی عبادت چھوڑ دی۔
اور شیطان کی عبادت شروع کردی۔
کیونکہ اللہ کے حکم کے خلاف شیطان کی بات ماننا در اصل شیطان کی عبادت ہے۔
پھر شیطان کے پجاری مشرک ہونے میں کیا شک ہے۔
؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾  (الروم: 31)
 اور نماز قائم کرو۔
اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ یعنی مومنوں کو دین کی طرف بلاتے ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے آخر میں یہ نصیحت کی کہ مشرکوں سے نہ ہوجاؤ۔
گویا کہ مشرک نماز نہیں پڑھتے لیکن مومن تو اس کو چھوڑنے کا تصور نہیں کرسکتا۔

(2)
ترک نماز کے سوا کسی کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر یا مشرک قرار نہیں دیا جاسکتا سوائے ان اعمال کے جو واقعتاً کفر اور شرک کے اعمال ہیں۔
جہاں ان اعمال پر کفر کا لفظ بولا گیا ہے وہاں یہ مطلب ہے کہ یہ اعمال مسلمانوں کو زیب نہیں دیتے۔
یہ تو کافر کریں تو کریں مثلاً ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ (سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ)
 (صحیح مسلم، الإیمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم سباب المسلم فسوق وقتاله کفر، حدیث: 64)
 مسلمان سے گالی گلوچ کرنا گناہ ہے اور اس سے جنگ کرناکفر ہے۔
 اس کے ساتھ آپس میں لڑنے والوں کو مسلمان بھی قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا﴾ (الحجرات: 9)
 اگر مومنوں کی دو جماعتیں آپس مں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرادیا کرو۔
 
(3)
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
تاہم معناً صحیح ہے۔
غالباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (صحیح الترغیب، للألبانی، رقم: 567، 565 وسنن ابن ماجه، الدکتور بشار عواد: 1080)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1080