سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
78. بَابٌ في فَرْضِ الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کی فرضیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1082
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ أَبُو سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ:" كُنْتُ قَائِدَ أَبِي حِينَ ذَهَبَ بَصَرُهُ، وَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ بِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ فَسَمِعَ الْأَذَانَ، اسْتَغْفَرَ لِأَبِي أُمَامَةَ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، وَدَعَا لَهُ، فَمَكَثْتُ حِينًا أَسْمَعُ ذَلِكَ مِنْهُ ثُمَّ قُلْتُ فِي نَفْسِي: وَاللَّهِ إِنَّ ذَا لَعَجْزٌ إِنِّي أَسْمَعُهُ كُلَّمَا سَمِعَ أَذَانَ الْجُمُعَةِ يَسْتَغْفِرُ لِأَبِي أُمَامَةَ، وَيُصَلِّي عَلَيْهِ، وَلَا أَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ لِمَ هُوَ؟ فَخَرَجْتُ بِهِ كَمَا كُنْتُ أَخْرُجُ بِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَلَمَّا سَمِعَ الْأَذَانَ اسْتَغْفَرَ كَمَا كَانَ يَفْعَلُ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَتَاهُ، أَرَأَيْتَكَ صَلَاتَكَ عَلَى أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ كُلَّمَا سَمِعْتَ النِّدَاءَ بِالْجُمُعَةِ لِمَ هُوَ؟، قَالَ: أَيْ بُنَيَّ، كَانَ أَوَّلَ مَنْ صَلَّى بِنَا صَلَاةَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ مَقْدَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ فِي نَقِيعِ الْخَضَمَاتِ فِي هَزْمٍ مِنْ حَرَّةِ بَنِي بَيَاضَةَ، قُلْتُ: كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟، قَالَ: أَرْبَعِينَ رَجُلًا".
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ جب میرے والد کی بینائی چلی گئی تو میں انہیں پکڑ کر لے جایا کرتا تھا، جب میں انہیں نماز جمعہ کے لیے لے کر نکلتا اور وہ اذان سنتے تو ابوامامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لیے استغفار اور دعا کرتے، میں ایک زمانہ تک ان سے یہی سنتا رہا، پھر ایک روز میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اللہ کی قسم یہ تو بے وقوفی ہے کہ میں اتنے عرصے سے ہر جمعہ یہ بات سن رہا ہوں کہ جب بھی وہ جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے لیے استغفار اور دعا کرتے ہیں، اور ابھی تک میں نے ان سے اس کی وجہ نہیں پوچھی، چنانچہ ایک روز معمول کے مطابق انہیں جمعہ کے لیے لے کر نکلا، جب انہوں نے اذان سنی تو حسب معمول (اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لیے) مغفرت کی دعا کی تو میں نے ان سے کہا: ابا جان! جب بھی آپ جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرماتے ہیں، آخر اس کی وجہ کیا ہے، تو انہوں نے کہا: میرے بیٹے! اسعد ہی نے ہمیں سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے قبیلہ بنی بیاضہ کے ہموار میدان «نقیع الخضمات» میں نماز جمعہ پڑھائی، میں نے سوال کیا: اس وقت آپ لوگوں کی تعداد کیا تھی؟ کہا: ہم چالیس آدمی تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 216 (1069)، (تحفة الأشراف: 11149) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بظاہر یہاں ایک اشکال ہوتا ہے کہ جمعہ تو مدینہ میں فرض ہوا، پھر اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے کیونکر جمعہ ادا کیا، اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ جمعہ مکہ ہی میں فرض ہو گیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے ڈر سے اس کو ادا نہ کر سکتے تھے، اور مدینہ میں اس کی فرضیت قرآن میں اتری، اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جنہوں نے جمعہ کے لئے مسلمان حاکم کی شرط رکھی ہے، کیونکہ مدینہ طیبہ میں اس وقت کوئی مسلمان حاکم نہ تھا، اس کے باوجود اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جمعہ ادا کیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1082  
´جمعہ کی فرضیت کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ جب میرے والد کی بینائی چلی گئی تو میں انہیں پکڑ کر لے جایا کرتا تھا، جب میں انہیں نماز جمعہ کے لیے لے کر نکلتا اور وہ اذان سنتے تو ابوامامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لیے استغفار اور دعا کرتے، میں ایک زمانہ تک ان سے یہی سنتا رہا، پھر ایک روز میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اللہ کی قسم یہ تو بے وقوفی ہے کہ میں اتنے عرصے سے ہر جمعہ یہ بات سن رہا ہوں کہ جب بھی وہ جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے لیے استغفار اور دعا کرتے ہیں، اور ابھی تک میں نے ان سے اس کی وجہ نہیں پوچھی، چنانچہ ایک روز معمول کے مطابق انہیں جمعہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1082]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  نماز جمعہ مشہور قول کے مطابق ہجرت کے بعد فرض ہوئی۔
اس صورت میں ہجرت سے پہلے مدینہ منورہ میں حضرت اسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نماز جمعہ پڑھانا محض ایک تبلیغی پروگرام کی حیثیت رکھتا تھا۔
کہ ہفتے میں ایک دن نماز ظہر کے بعد کچھ وعظ ونصیحت کردی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس عمل کو پسند فرما کر ہجرت نبوی کے زمانہ میں اسے فرض کردیا۔

(2)
حُرَّہ مدینہ منورہ سے باہر پتھریلا میدانی علاقہ ہے۔
غالباً شہر کے اندر کوئی مناسبت مقام ایسا نہیں ہوگا جہاں مسلمان مشرکوں کی مداخلت سے محفوظ رہ کر تبلیغی اجتماع منعقد کرسکیں۔

(3)
قوم کے ایسے افراد کی خوبیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔
جن کی وجہ سے مسلمانوں کو دینی یا اجتماعی فائدہ ہوا ہو۔
اور انھیں دعائے خیر سے یاد کرنا چاہیے۔

(4)
چالیس افراد کے شریک ہونے سے یہ سمجھنا درست نہیں کہ جمعے کے لئے چالیس افراد کی موجودگی ضروری ہے۔
بلکہ غیر مسلموں کے کسی شہر میں جب تین چار بھی مسلمان موجود ہوں۔
تو انھیں اپنی اجتماعیت قائم رکھنے کےلئے باجماعت نماز اور جمعے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ جمعے اور جماعت کے لئے مسجد موجود نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1082