صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
27. بَابُ سِوَاكِ الرَّطْبِ وَالْيَابِسِ لِلصَّائِمِ:
باب: روزہ دار کے لیے تر یا خشک مسواک استعمال کرنی درست ہے۔
وَيُذْكَرُ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ وَهُوَ صَائِمٌ مَا لَا أُحْصِي أَوْ أَعُدُّ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ وُضُوءٍ، وَيُرْوَى نَحْوُهُ، عَنْ جَابِرٍ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَخُصَّ الصَّائِمَ مِنْ غَيْرِهِ، وَقَالَتْ عَائِشَةُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ، مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ، وَقَالَ عَطَاءٌ، وَقَتَادَةُ يَبْتَلِعُ رِيقَهُ.
‏‏‏‏ اور عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزہ کی حالت میں بےشمار دفعہ وضو میں مسواک کرتے دیکھا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتی تو میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم وجوباً دے دیتا۔ اسی طرح کی حدیث جابر اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما کی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار وغیرہ کی کوئی تخصیص نہیں کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا کہ (مسواک) منہ کو پاک رکھنے والی اور رب کی رضا کا سبب ہے اور عطاء اور قتادہ نے کہا روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 29  
´جب بھی وضو کیا جائے اس کے ساتھ مسواک کرنا مستحب ہے`
«. . . عن ابي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم انه قال: ‏‏‏‏لولا ان اشق على امتي لامرتهم بالسواك مع كل وضوء . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر مجھے اپنی امت کو مشقت و تکلیف میں مبتلا کرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 28]

لغوی تشریح:
«بَابُ الْوُضُوءِ» واؤ کے ضمہ کے ساتھ۔ مصدر ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی ہیں: ہاتھوں اور پاؤں وغیرہ کے اطراف کو مطلق طور پر دھونا۔ اور شرعاً معنی ہیں: وضو کا عمل، جو مشہور و معروف ہے۔ اگر وضو کو واؤ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی برتن میں موجود پانی کے ہیں جس سے وضو کیا جاتا ہے۔
«لَوْ لَا أَنْ أَشُقَّ» کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے یہ خوف لاحق نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو تکلیف اور مشقت میں مبتلا کر دوں گا۔
«لَأَمَرْتُهُمْ» تو میں ضرور ان کو حکم دیتا، یعنی میں واجب قرار دے دیتا۔ اور رفع مشقت کی غرض سے حکم صادر فرمانے سے رک جانا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسواک کرنے کو مستحب بلکہ اس سے بھی زیادہ مؤکد سمجھا جائے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بھی وضو کیا جائے اس کے ساتھ مسواک کرنا مستحب ہے۔ صحیح مسلم اور ابوداود میں مروی ہے کہ مسواک کرنا منہ کو صاف اور اپنے پروردگار کو راضی کرنے کا موجب ہے۔ [صحيح مسلم، الطهارة، باب السواك، حديث: 252، وسنن أبى داود، الطهارة، حديث: 4746]
➋ مسواک تمام انبیاء و رسل کی سنت ہے۔
➌ مسند احمد، ابن خزیمہ، حاکم اور دارقطنی وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جو نماز مسواک کر کے پڑھی گئی ہو اس کا ثواب بغیر مسواک کیے پڑھی جانے والی نماز سے ستر گنا زیادہ ہے۔ گو یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم اس کا ضعف دیگر شواہد کی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے، چنانچہ اسی بنا پر اسے صحیح قرار دیا گیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: [تخريج صلاة الرسول، حافظ عبدالرؤف]
➍ اگر پہلے سے باوضو ہو تو نماز کی ادائیگی سے پہلے مسواک کر لینی چاہئے تاکہ مذکورہ فضیلت حاصل ہو اور اتباع سنت کا تقاضا پورا ہو سکے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 29   
حدیث نمبر: 1934
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ حُمْرَانَ:" رَأَيْتُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَوَضَّأَ فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى إِلَى الْمَرْفِقِ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُسْرَى إِلَى الْمَرْفِقِ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ثَلَاثًا، ثُمَّ الْيُسْرَى ثَلَاثًا، ثُمّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ نَحْوَ وَضُوئِي هَذَا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ تَوَضَّأَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، لَا يُحَدِّثُ نَفْسَهُ فِيهِمَا بِشَيْءٍ، إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاء بن زید نے، ان سے حمران نے انہوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا، آپ نے (پہلے) اپنے دونوں ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی ڈالا پھر کلی کی اور ناک صاف کی، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ کہنی تک دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک دھویا تین تین مرتبہ، اس کے بعد اپنے سر کا مسح کیا اور تین مرتبہ داہنا پاؤں دھویا، پھر تین مرتبہ بایاں پاؤں دھویا، آخر میں کہا کہ جس طرح میں نے وضو کیا ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے، پھر آپ نے فرمایا تھا کہ جس نے میری طرح وضو کیا پھر دو رکعت نماز (تحیۃ الوضو) اس طرح پڑھی کہ اس نے دل میں کسی قسم کے خیالات و وساوس گزرنے نہیں دیئے تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث430  
´داڑھی میں خلال کرنے کا بیان۔`
عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور اپنی داڑھی میں خلال کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 430]
اردو حاشہ:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈاڑھی کا خلال کرنا سنت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 430   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1934  
1934. حضرت حمران سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر تین تین بار پانی بہایا۔ پھر کلی اور ناک میں پانی ڈالا اس کے بعد تین بار چہرہ دھویا پھر دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا۔ اس کے بعد سرکا مسح کیا۔ پھر دایاں پاؤں تین بار اس کے بعد بایاں پاؤں تین بار دھویا، پھر فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور فرمایا: جس نے میرے وضو جیسا وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں اور دل میں کوئی خیال نہ لایا تو اس کے پچھلے سب گناہ بخش دیے جائیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1934]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث کے معنی ہیں کہ جس شخص نے کامل وضو کیا جو اس کی تمام سنتوں پر مشتمل ہو، ان میں مسواک بھی شامل ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسواک کے خشک یا تر ہونے میں کوئی فرق نہیں۔
مسواک کرنے میں روزہ دار اور غیر روزہ دار کی تفریق کو روا نہیں رکھا گیا، اس لیے روزہ دار مسواک کر سکتا ہے۔
مسواک تر ہو یا خشک، روزہ فرض ہو یا نفل، دن کے آغاز میں کی جائے یا اس کے آخری حصے میں اسے استعمال کیا جائے، سب جائز ہے۔
قبل ازیں امام ابن سیرین نے مسواک کرنے کو وضو پر قیاس کیا تھا۔
آپ نے فرمایا:
روزہ دار کے لیے تازہ مسواک کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
ان سے غرض کیا گیا کہ تازہ مسواک کا ذائقہ ہوتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا:
پانی کا بھی ذائقہ ہوتا ہے، حالانکہ تم اس سے کلی کرتے ہو۔
امام بخاری نے روزہ دار کے لیے مسواک کرنے کا جواز ثابت کرنے کے لیے حدیث عثمان کو بیان کیا ہے جس میں وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے۔
اس میں وضاحت ہے کہ آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔
اس وضو میں روزہ دار اور افطار کرنے والے کا فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا۔
دراصل امام بخاری ؒ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو روزے دار کے لیے تازہ مسواک کو مکروہ خیال کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 202/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1934