سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
114. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ
باب: وتر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1169
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ السَّلُولِيِّ ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ : إِنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ، وَلَا كَصَلَاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْتَرَ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ، أَوْتِرُوا، فَإِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر واجب نہیں ہے، اور نہ وہ فرض نماز کی طرح ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھی پھر فرمایا: اے قرآن والو! وتر پڑھو، اس لیے کہ اللہ طاق ہے، طاق (عدد) کو پسند فرماتا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 336 (1416)، سنن الترمذی/الصلاة 216 (453)، سنن النسائی/قیام اللیل 27 (1676)، (تحفة الأشراف: 10135)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/100، 110، 143، 144، 148)، سنن الدارمی/الصلاة 209 (1621) (صحیح لغیرہ) (تراجع الألبانی: رقم: 482)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: قرآن والوں سے مراد قراء و حفاظ کی جماعت ہے، نہ کہ عامۃ الناس، اس کی تائید اگلی روایت میں «ليس لك ولا لأصحابك» کے جملہ سے ہو رہی ہے، جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک اعرابی سے کہا تھا، اس سے یہ معلوم ہوا کہ وتر واجب نہیں ہے، کیونکہ اگر واجب ہوتی تو حکم عام ہوتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1169  
´وتر کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر واجب نہیں ہے، اور نہ وہ فرض نماز کی طرح ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھی پھر فرمایا: اے قرآن والو! وتر پڑھو، اس لیے کہ اللہ طاق ہے، طاق (عدد) کو پسند فرماتا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1169]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے محقق نے سنداً ضعیف جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔
اورانہی محققین کی رائے اَقْرَبُ إِلَی الصَّوّاب معلوم ہوتی ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد بن حنبل، 413/2  وصحیح ابوداؤد (مفصل)
حدیث: 1274)


(2)
  وتر سے پوری نماز تہجد بھی مراد ہوسکتی ہے۔
اور تہجد کے آخر میں پڑھی جانے والی چند رکعتیں بھی۔
احادیث میں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
اس حدیث میں اگر نماز تہجد مراد ہو تو وہ نفلی نماز ہے۔
تاہم اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔
اوراگر تہجد کی آخری رکعتیں مراد ہوں۔
جو عرف عام میں وتر کہلاتی ہیں۔
تو انھیں سنت مؤکدہ قراردیا جا سکتا ہے۔

(3)
  وتر کے لفظی معنی طاق ہیں۔
یعنی وہ عدد جو دو پر تقسیم نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ایک ہے۔
اور ایک کا عدد سب سے پہلا طاق عدد ہے نماز وتر یا نماز تہجد مع وتر بھی طاق عدد میں ہوتی ہے۔
اس لئے بھی وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے۔

(4)
جو عمل اللہ کو پسند ہو وہ مومن کو بھی پسند ہوتا ہے۔
اس لئے اس پر اہتمام سے عمل کرنا چاہیے۔
 
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1169   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 294  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وتر فرضوں کی طرح حتمی اور لازمی نہیں ہے بلکہ سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے۔
اسے ترمذی اور نسائی نے بیان کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 294»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء أن الوتر ليس بحتم، حديث:453، والنسائي، قيام الليل، حديث:1676، والحاكم:1 /300، ووافقه الذهبي، أبوسحاق مدلس وعنعن.»
تشریح:
یہ حدیث جمہور علماء کی دلیل ہے جو وتر کے وجوب کے قائل نہیں۔
بعض محققین نے کہا ہے کہ اس کی سند میں عاصم بن ضمرہ کوفی متکلم فیہ ہے مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اعدل الاقوال ذکر کیا ہے کہ وہ صدوق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں انھوں نے امام ترمذی رحمہ اللہ اور حاکم رحمہ اللہ کی تحسین و تصحیح نقل کر کے کوئی کلام نہیں کیا۔
البتہ ہمارے فاضل محقق نے اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘ نیز مسند احمد میں بھی اس کے شواہد ہیں جنھیں الموسوعۃ الحدیثیہ والوں نے قوی قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ / ۸۱) لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 294   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 453  
´وتر کے فرض نہ ہونے کا بیان۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر (طاق) ۲؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 453]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔

2؎:
اللہ وتر (طاق) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کو ئی ثانی نہیں،
صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔

3؎:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم ﷺ نے اہل قرآن کہا،
اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے،
اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے،
نہ کہ صرف قرآن کا،
جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے،
یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے،
حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

نوٹ:
(سند میں ابو اسحاق سبیعی مختلط ہیں،
نیز عاصم میں قدرے کلام ہے،
لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 453