سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
116. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِرَكْعَةٍ
باب: ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1176
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ رَجُلٌ، فَقَالَ: كَيْفَ أُوتِرُ؟، قَالَ:" أَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ"، قَالَ: إِنِّي أَخْشَى أَنْ يَقُولَ النَّاسُ الْبُتَيْرَاءُ، فَقَالَ:" سُنَّةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ يُرِيدُ هَذِهِ سُنَّةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
مطلب بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: میں وتر کیسے پڑھوں؟ تو انہوں نے کہا: تم ایک رکعت کو وتر بناؤ، اس شخص نے کہا: میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس نماز کو «بتیراء» (دم کٹی نماز) کہیں گے، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے، ان کی مراد تھی کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7459، ومصباح الزجاجة: 415) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں انقطاع ہے کیونکہ بقول امام بخاری (التاریخ الکبیر: 8/ 8) مطلب بن عبد اللہ کا سماع کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے، الا یہ کہ انہوں نے کہا ہے کہ مجھ سے بیان کیا اس شخص نے جو نبی اکرم ﷺ کے خطبہ میں حاضر تھا، اور ابو حاتم نے فرمایا: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی، میں نہیں جانتا کہ ان سے سنایا نہیں سنا (المراسیل: 209)، پھر الجرح و التعدیل میں کہا کہ ان کی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرسل (منقطع) ہے، شاید یہ تصحیح شواہد کی وجہ سے ہے، جس کو مصباح الزجاجة (419) میں ملاحظہ کریں، یہ حدیث صحیح ابن خزیمہ (1074) میں ہے، جس کے اسناد کی تصحیح البانی صاحب نے کی ہے، جب کہ ابن ماجہ میں ضعیف لکھا ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف