سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
137. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْبِنَاءِ عَلَى الصَّلاَةِ
باب: نماز پر بنا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1221
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَصَابَهُ قَيْءٌ أَوْ رُعَافٌ أَوْ قَلَسٌ أَوْ مَذْيٌ، فَلْيَنْصَرِفْ، فَلْيَتَوَضَّأْ، ثُمَّ لِيَبْنِ عَلَى صَلَاتِهِ وَهُوَ فِي ذَلِكَ لَا يَتَكَلَّمُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے نماز میں قے، نکسیر، منہ بھر کر پانی یا مذی آ جائے تو وہ لوٹ جائے، وضو کرے پھر اپنی نماز پر بنا کرے، لیکن اس دوران کسی سے کلام نہ کرے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16252، ومصباح الزجاجة: 428) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہیں، اور ان کی روایت حجاز سے ضعیف ہوتی ہے، اور یہ اسی قبیل سے ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 69  
´مذی کے خارج ہونے کی صورت میں وضو کا ٹوٹ جانا`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏من اصابه قيء او رعاف او قلس او مذي،‏‏‏‏ فلينصرف فليتوضا،‏‏‏‏ ثم ليبن على صلاته،‏‏‏‏ وهو فى ذلك لا يتكلم . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو نماز میں قے آ جائے یا نکسیر پھوٹ پڑے یا پیٹ کے اندر کی چیز منہ کے راستہ سے باہر آ جائے یا مذی کا خروج ہو جائے تو اسے نماز سے نکل کر وضو کرنا چاہیئے اور جہاں سے نماز چھوڑی تھی اسی پر بنا کر لے۔ بشرطیکہ اس دوران میں اس نے گفتگو نہ کی ہو . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 69]

لغوی تشریح:
«رُعَافٌ» را پر ضمہ اور عین پر تخفیف ہے۔ ناک سے جو خون نکلتا ہے اسے رعاف یعنی نکسیر کہتے ہیں۔
«قَلْسٌ» قاف پر فتحہ ہے اور لام ساکن ہے۔ خور و نوش کی کوئی چیز جو پیٹ سے منہ کے راستے باہر آ جائے۔
«لِيَبْن» اس کا لام، لام امر ہے۔ اور بنا یہ ہے کہ آدمی نے نماز شروع کی، ایک یا دو یا زیادہ رکعات پڑھ چکا تھا کہ بے وضو ہو گیا، اب نیا وضو کر کے بغیر کسی قسم کی گفتگو کیے آ کر نماز شروع کر دے، جتنی پہلے پڑھ چکا تھا اسے شمار کرے اور باقی ماندہ رکعات پوری کر کے سلام پھیر دے۔ اس کی بے وضو ہونے سے پہلے پڑھی ہوئی رکعات بھی ضائع نہیں جائیں گی اور ازسرِ نو پوری نماز بھی پڑھنا نہیں پڑے گی۔
«وَهُوَ فِي ذٰلِكَ لَا يَتَكَلَّمُ» اور وہ اس دوران میں کسی قسم کی گفتگو نہ کرے۔ یہ جملہ حالیہ ہے جو شرط پر دلالت کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اس کا وضو ٹوٹ گیا تو بنا کے لیے یہ شرط ہے کہ وضو کر کے واپس آنے اور نماز میں شامل ہونے تک کسی قسم کی بات چیت نہ کرے۔ اگر بات چیت کر لی تو بنا نہیں کر سکتا، ازسرِ نو پوری نماز پڑھنی ہو گی۔ تاہم یہ بات صحیح نہیں جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ مذی کے خارج ہونے کی صورت میں فقہاء بالاتفاق وضو کے ٹوٹ جانے کے قائل ہیں، البتہ قے آنے، پیٹ میں سے کھانے پینے کی کوئی چیز منہ کے راستے سے نکلنے اور ناک میں سے خون کے جاری ہونے، یعنی نکسیر پھوٹنے کی صورت میں ایک گروہ کا خیال ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے جبکہ دوسرا گروہ وضو نہ ٹوٹنے کا قائل ہے۔
➋ اسی طرح بنا کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہا اللہ دونوں بنا کے قائل ہیں جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ اس کے قائل نہیں۔ پہلے گروہ کی دلیل یہی حدیث ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: جب نمازی بے وضو ہو گیا تو نماز نہ رہے گی۔ جب نماز ہی نہ رہی تو بنا کس پر ہو گی۔
➌ اسی طرح نکسیر سے وضو ٹوٹنے کے مسئلے میں بھی ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قے اور نکسیر دونوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے برخلاف امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ نکسیر وغیرہ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
➍ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے عبداللہ بن عمر، جابر بن یزید، عبداللہ بن عباس، ابن ابی اوفی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے سعید بن مسیّب، مکحول اور ربیعہ رحمہم اللہ وغیرہ بھی قے اور نکسیر سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل نہیں۔
➎ صحیح بات یہی ہے کہ یہ حدیث ضعیف اور مرسل ہے، نیز احادیث صحیحہ کے معارض و مخالف بھی ہے، اس لیے اس کے ذریعے سے حجت قائم نہیں ہو سکتی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 69