سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
147. . بَابُ : النَّهْيِ عَنِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الْعَصْرِ
باب: فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 1250
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی اچھے لوگوں نے گواہی دی، ان میں میرے نزدیک سب زیادہ اچھے شخص عمر رضی اللہ عنہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المواقیت30 (581)، صحیح مسلم/المسافرین 51 (826)، سنن ابی داود/الصلاة 299 (1276)، سنن الترمذی/الصلاة20 (183)، سنن النسائی/المواقیت 32 (563)، (تحفة الأشراف: 10492)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/21، 39، 50، 51)، سنن الدارمی/الصلاة 142 (1473) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1250  
´فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی اچھے لوگوں نے گواہی دی، ان میں میرے نزدیک سب زیادہ اچھے شخص عمر رضی اللہ عنہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1250]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے حدیث بیان کرتے وقت یہ الفاظ کہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی۔
اور اس سے مقصود محض تاکید ہے۔
جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ انھیں یہ حدیث پوری طرح یاد ہے۔
اور وہ اسے پورے اعتماد سے بیان کررہے ہیں۔
جس طرح گواہی پورے یقین اور اعتماد کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔

(2)
حدیث قابل اعتماد اور ثقہ افراد کی روایت کی ہوئی قبول ہوتی ہے۔
ناقابل اعتماد افراد کی روایت کردہ حدیث قبول کرنا درست نہیں۔

(3)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے جوحدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نہیں سنی ہوتی تھی وہ دوسرے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین سے سن کر روایت کرتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔
یعنی قابل اعتماد افراد کی روایت کردہ صحیح سند والی حدیث پر عمل کرنا صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے ہاں بھی واجب تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1250   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 183  
´عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے کئی لوگوں سے (جن میں عمر بن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں) سنا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فجر کے بعد جب تک کہ سورج نکل نہ آئے ۱؎ اور عصر کے بعد جب تک کہ ڈوب نہ جائے نماز ۲؎ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 183]
اردو حاشہ:
1؎:
بخاری کی روایت میں ((حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ)) ہے،
دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس حدیث میں طلوع سے مراد مخصوص قسم کا طلوع ہے اور وہ سورج کا نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنا ہے۔

2؎:
مذکورہ دونوں اوقات میں صرف سبب والی نفلی نمازوں سے منع کیا گیا ہے،
فرض نمازوں کی قضاء،
تحیۃ المسجد،
تحیۃ الوضوء،
طواف کی دو رکعتیں اور صلاۃِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 183   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1276  
´ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی پسندیدہ لوگوں نے گواہی دی ہے، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور میرے نزدیک عمر رضی اللہ عنہ ان میں سب سے پسندیدہ شخص تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کوئی نماز نہیں، اور نہ عصر کے بعد سورج ڈوبنے سے پہلے کوئی نماز ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1276]
1276۔ اردو حاشیہ:
➊ سورج طلوع یا غروب ہونے میں دیر ہو تو سببی پڑھی جا سکتی ہے۔ ویسے عام نفل پڑھنا ناجائز ہے۔
➋ اہل بیت اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں انتہائی اخوت اور محبت کے روابط تھے، بہت بڑے ظالم ہیں وہ لوگ جو ان مقدس ہستیوں کو ایک دوسرے کا حریف ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1276