صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
33. بَابُ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ وَالإِفْطَارِ:
باب: سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا۔
حدیث نمبر: 1941
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ، سَمِعَ ابْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَقَالَ لِرَجُلٍ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لِي، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الشَّمْسُ، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لِي، قَالَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، الشَّمْسُ، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لِي، فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُ فَشَرِبَ، ثُمَّ رَمَى بِيَدِهِ هَاهُنَا، ثُمَّ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ أَقْبَلَ مِنْ هَاهُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ"، تَابَعَهُ جَرِيرٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق شیبانی نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے (روزہ کی حالت میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب (بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ابھی تو سورج باقی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اتر کر ستو گھول لے، اب کی مرتبہ بھی انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ابھی سورج باقی ہے لیکن آپ کا حکم اب بھی یہی تھا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا جب تم دیکھو کہ رات یہاں سے شروع ہو چکی ہے تو روزہ دار کو افطار کر لینا چاہئے۔ اس کی متابعت جریر اور ابوبکر بن عیاش نے شیبانی کے واسطہ سے کی ہے اور ان سے ابواوفی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2352  
´روزہ افطار کرنے کے وقت کا بیان۔`
سلیمان شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے آپ روزے سے تھے، جب سورج غروب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! (سواری سے) اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر اور شام ہو جانے دیں تو بہتر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، بلال رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: اللہ کے رسول! ابھی تو دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، چنانچہ وہ اترے اور ستو گ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2352]
فوائد ومسائل:
(1) سورج غروب ہوتے ہی افطار کا وقت ہو جاتا ہے۔
بعد از غروب انتظار یا احتیاط کے کوئی معنی نہیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا تعمیل ارشاد نبوی میں تردد فضا میں سفیدی وغیرہ کی وجہ سے تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ سورج شاید کسی پہاڑ وغیرہ کی اوٹ میں ہے۔
حالانکہ فی الواقع سورج غروب ہو چکا تھا جیسا کہ راوی حدیث نے بیان کیا۔

(2) اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ظاہر امور کی وضاحت کروا لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا، تاکہ امکانی شبہے کا ازالہ ہو جائے۔

(3) نیز صاحب علم کو یاد دلانا کوئی معیوب بات نہیں نہ یہ سوء ادبی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2352   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1941  
1941. حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ (شام کے وقت) آپ نے ایک شخص سے فرمایا: اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ابھی تو آفتاب کی روشنی ہے۔ آپ نے فرمایا: اتر کر میرے لیے ستو گھول۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!ابھی تک سورج کی روشنی باقی ہے۔ آپ نے فرمایا: اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔ چنانچہ وہ اترا اور آپ کے لیے ستو تیار کیے۔ آپ نے انھیں نوش کیا۔ پھر اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہوجائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرنا چاہیے۔ جریر اور ابو بکر عیاش نے ابو اسحاق سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ وہ ابن ابی اوفیٰ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1941]
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظا ہر ہے، روزہ کھولتے وقت اس دعا کا پڑھنا سنت ہے اللهم لكَ صُمتُ و علی رزقكَ أفطرتُ یعنی یا اللہ! میں نے یہ روزہ تیری رضا کے لیے رکھا تھا اور اب تیرے ہی رزق پر اسے کھولا ہے۔
اس کے بعد یہ کلما ت پڑھے ذهبَ الظمأُ و ابتلتِ العروقُ و ثبت الأجر إن شاءاللہ یعنی اللہ کا شکر ہے کہ روزہ کھولنے سے پیاس دور ہو گئی اور رگیں سیراب ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اس کے پاس اس کا ثواب عظیم لکھا گیا۔
حدیث للصائم فرحتان الخ یعنی روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں پر حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں کہ پہلی خوشی طبعی ہے اور رمضان کے روزہ افطار کرنے سے نفس کو جس چیز کی خواہش تھی وہ مل جاتی ہے اور دوسری روحانی فرحت ہے اس واسطے کہ روزہ کی وجہ سے روزہ دار حجاب جسمانی سے علیحدہ ہونے اور عالم بالا سے علم الیقین کا فیضان ہونے کے بعد تقدس کے آثار ظاہر ہونے کے قابل ہوجاتاہے، جس طرح نماز کے سبب سے تجلی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔
(حجة اللہ البالغة)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1941   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1941  
1941. حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ (شام کے وقت) آپ نے ایک شخص سے فرمایا: اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ابھی تو آفتاب کی روشنی ہے۔ آپ نے فرمایا: اتر کر میرے لیے ستو گھول۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!ابھی تک سورج کی روشنی باقی ہے۔ آپ نے فرمایا: اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔ چنانچہ وہ اترا اور آپ کے لیے ستو تیار کیے۔ آپ نے انھیں نوش کیا۔ پھر اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہوجائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرنا چاہیے۔ جریر اور ابو بکر عیاش نے ابو اسحاق سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ وہ ابن ابی اوفیٰ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1941]
حدیث حاشیہ:
(1)
دوران سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق مختلف آراء ہیں:
ظاہری حضرات کا خیال ہے کہ سفر میں روزہ چھوڑنا واجب ہے۔
اگر کوئی دوران سفر میں روزہ رکھے گا تو اسے کوئی اجروثواب نہیں ملے گا، جبکہ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں برابر ہیں، ان میں کوئی بھی افضل نہیں۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ دونوں صورتوں میں جو آسان ہو اسے اختیار کر لینا چاہیے۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا ہے، اس لیے ہمارے نزدیک روزہ رکھنا افضل ہے اور نہ رکھنا رخصت ہے بشرطیکہ روزہ رکھنے میں کوئی دشواری یا مشقت نہ ہو اور نہ فخر و غرور میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہی ہو۔
(2)
جو شخص رخصت قبول کرنے سے اعراض کرتا ہو یا اس کے لیے روزہ نقصان دہ ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑ دینا بہتر ہے۔
(3)
صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ مذکورہ سفر ماہ رمضان میں تھا (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2559(1101)
اور رمضان میں سفر غزوۂ بدر یا فتح مکہ کے وقت ہوا ہے۔
حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ غزوۂ بدر میں شریک نہیں تھے، اس لیے یہ سفر فتح مکہ کے وقت ہی تھا۔
واللہ أعلم۔
(عمدةالقاري: 131/8) (4)
سورج غروب ہو چکا تھا لیکن اس کے آثار ابھی باقی تھے، اس بنا پر صحابی نے گمان کیا کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا، اس لیے انہوں نے دوبارہ، سہ بارہ اپنا سوال دہرایا، اس کا بار بار تکرار کسی مفاد کی وجہ سے نہیں تھا۔
واضح رہے کہ یہ صحابئ رسول حضرت بلال ؓ تھے۔
(عمدةالقاري: 131/8) (5)
حضرت جریر کی متابعت امام بخاری ؒ نے خود بیان کی ہے۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5297)
نیز ابوبکر بن عیاش کی متابعت بھی امام بخاری نے ذکر کی ہے۔
(صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1958)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1941