سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
154. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ فِي الاِسْتِسْقَاءِ
باب: استسقا کی دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1270
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْقَاسِمِ أَبُو الْأَحْوَصِ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ جِئْتُكَ مِنْ عِنْدِ قَوْمٍ مَا يَتَزَوَّدُ لَهُمْ رَاعٍ، وَلَا يَخْطِرُ لَهُمْ، فَحْلٌ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا مَرِيئًا طَبَقًا مَرِيعًا غَدَقًا عَاجِلًا غَيْرَ رَائِثٍ، ثُمَّ نَزَلَ، فَمَا يَأْتِيهِ أَحَدٌ مِنْ وَجْهٍ مِنَ الْوُجُوهِ إِلَّا قَالُوا قَدْ أُحْيِينَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کے پاس ایک ایسی قوم کے پاس سے آیا ہوں جس کے کسی چرواہے کے پاس توشہ (کھانے پینے کی چیزیں) نہیں، اور کوئی بھی نر جانور (کمزوری دور دبلے پن کی وجہ سے) دم تک نہیں ہلاتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر یوں دعا فرمائی: «اللهم اسقنا غيثا مغيثا مريئا طبقا مريعا غدقا عاجلا غير رائث» اے اللہ! ہمیں سیراب کر دینے والا، فائدہ دینے والا، ساری زمین پر برسنے والا، سبزہ اگانے والا، زور کا برسنے والا، جلد برسنے والا اور تھم کر نہ برسنے والا پانی نازل فرما، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر گئے، اس کے بعد جو بھی جس کسی سمت سے آتا وہ یہی کہتا کہ ہمیں زندگی عطا ہو گئی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5392، ومصباح الزجاجة: 444) (صحیح)» ‏‏‏‏ (بوصیری نے حدیث کو صحیح کہا ہے، اور رجال کو ثقات لیکن اس حدیث کی سند میں حبیب بن ابی ثابت مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 2؍146، اسی کے ہم مثل اوپر صحیح حدیث گذری، اور بعض اجزاء حدیث کو اصحاب سنن اربعہ نے روایت کیا ہے، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجہ بتحقیق الشہری: 448)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1270  
´استسقا کی دعا کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کے پاس ایک ایسی قوم کے پاس سے آیا ہوں جس کے کسی چرواہے کے پاس توشہ (کھانے پینے کی چیزیں) نہیں، اور کوئی بھی نر جانور (کمزوری دور دبلے پن کی وجہ سے) دم تک نہیں ہلاتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر یوں دعا فرمائی: «اللهم اسقنا غيثا مغيثا مريئا طبقا مريعا غدقا عاجلا غير رائث» اے اللہ! ہمیں سیراب کر دینے والا، فائدہ دینے والا، ساری زمین پر برسنے والا، سبزہ اگانے والا، زور کا برسنے والا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1270]
اردو حاشہ:
فائدہ:
چرواہا سفر خرچ نہیں لیتا اس کا مطلب ہے کہ چرواہے ریوڑ لے کرآبادی سے دور نہیں جاتے کیونکہ کہیں گھاس نہیں رہی اس لئے جانور گھروں میں بھوکے مررہے ہیں۔
کوئی سانڈ دم نہیں ہلاتا اس کا مطلب ہے کہ جانور بہت کمزور ہوگئے ہیں۔
حتیٰ کہ سانڈ بھی جوزیادہ طاقت ور ہوتے ہیں۔
ان میں جوش اور چستی باقی نہیں رہی وہ بھی خاموش کھڑے رہتے ہیں۔
دم تک نہیں ہلاتے۔
اس روایت کوبعض افراد نے صحیح کہا ہے۔ (سنن ابن ماجة به تحقیق الدکتور بشار عواد)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1270