سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
163. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي التَّقْلِيسِ يَوْمَ الْعِيدِ
باب: عید کے دن دف بجانے اور کھیلنے کودنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1302
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: شَهِدَ عِيَاضٌ الْأَشْعَرِيُّ عِيدًا بِالْأَنْبَارِ، فَقَالَ:" مَا لِي لَا أَرَاكُمْ تُقَلِّسُونَ كَمَا كَانَ يُقَلَّسُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عامر شعبی کہتے ہیں کہ عیاض اشعری نے شہر انبار میں عید کی اور کہا: کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح دف بجاتے اور گاتے نہیں دیکھ رہا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بجایا، اور گایا جاتا تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11017، ومصباح الزجاجة: 1302) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں شریک ضعیف الحدیث راوی ہیں، اور ایسے ہی سوید بن سعید متکلم فیہ راوی ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: رقم: 4285)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1302  
´عید کے دن دف بجانے اور کھیلنے کودنے کا بیان۔`
عامر شعبی کہتے ہیں کہ عیاض اشعری نے شہر انبار میں عید کی اور کہا: کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح دف بجاتے اور گاتے نہیں دیکھ رہا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بجایا، اور گایا جاتا تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1302]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انبار ایک شہر کا نام ہے۔

(2)
تقلیس کے معنی ہیں۔
خوشی کے موقع پر اظہار مسرت کےلئے قومی کھیل کود، بچیوں کا قومی گیت گانا یا دف وغیرہ بجا لینا۔
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
تاہم دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خوشی کے موقعوں پر ان چیزوں کا جواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رکھا ہے۔
لیکن ایک چیز ہے گھریلو سطح پرگھریلو بچیوں کا محدود دائرے میں دف بجا کر یا آباء واجداد کے مفاخر ومآثر کے تذکروں پر مبنی قومی گیت گا کر خوشی کا اظہار کرنا، اور ایک ہے ماہرفن مغنیات کا عشقیہ مخرب اخلاق، رہزن تمکین وہوش اور غارت گر ایمان قسم کے گانے سازوآواز کے جادو کے ساتھ گانا یا پیشہ ور فاحشہ عورتوں کاعریاں یا نیم عریاں رقص وسرور کا مظاہرہ کرنا ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اوّل الذکر کے جواز کا مطلب ثانی الذکر کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔
بڑا ظالم ہے وہ شخص جو احادیث میں بیان کردہ اول الذکر قسم کے واقعات سے دوسری قسم کے فواحش ومنکرات کا جواز ثابت کرکے نبی ﷺکو بھی ان بےہودگیوں کا (نعوذ باللہ)
مؤید ثابت کرتا ہے حالانکہ آپ ﷺ تو ان فواحش کو مٹانے کےلئے آئے تھے نہ کہ ان کو برقرار رکھنے یا ان کی حوصلہ افزائی کرنے کےلئے ھداھم اللہ تعالیٰ علاوہ ازیں اول الذکر چیزیں بھی صرف مباح (جائز)
ہی ہیں نہ کہ فرض وواجب یا سنت ومستحب اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ کوئی مباح کام حرام کا ذریعہ بن رہا ہو تو وہ مباح کام بھی ناجائز قرار پاتا ہے۔
اور حرام سے بچنے بچانے کے لئے مباح کام سے بھی لوگوں کوروک دیا جاتا ہے۔
اس لئے جو علماء شادی وغیرہ کے موقع پر ان جائز چیزوں سے بھی روکتے ہیں۔
حکمت عملی کے اعتبار سے ان کا موقف اسلام کے زیادہ قریب ہے۔
کیونکہ بات صرف دف تک ہی نہیں رہتی۔
ڈھول ڈھمکوں سازوموسیقی اور بینڈ باجوں تک بلکہ مجروں اور کھلم کھلا فواحش و منکرات کے ارتکاب تک پہنچ جاتی ہے۔
أعاذنا اللہ منه
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1302