سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
170. . بَابٌ في وَقْتِ صَلاَةِ الْعِيدَيْنِ
باب: عیدین کی نماز کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1317
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الضَّحَّاكِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ النَّاسِ يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى، فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ، وَقَالَ:" إِنْ كُنَّا لَقَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ، وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ".
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلے تو امام کے تاخیر کرنے پر ناگواری کا اظہار کیا، اور کہنے لگے کہ ہم لوگ تو اس وقت عیدین کی نماز سے فارغ ہو جایا کرتے تھے، اور وہ وقت کراہت کے گزرنے کے بعد نماز الضحی (چاشت کی نفل) کا وقت ہوتا تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 246، (1135)، (تحفة الأشراف: 5206) (صحیح) (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں راوی عبد الوہاب بن ضحاک متروک ہیں)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: نفل فجر کے بعد اس وقت صحیح ہوتی ہے، جب سورج ایک نیزے کے مقدار بلند ہو جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1317  
´عیدین کی نماز کے وقت کا بیان۔`
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلے تو امام کے تاخیر کرنے پر ناگواری کا اظہار کیا، اور کہنے لگے کہ ہم لوگ تو اس وقت عیدین کی نماز سے فارغ ہو جایا کرتے تھے، اور وہ وقت کراہت کے گزرنے کے بعد نماز الضحی (چاشت کی نفل) کا وقت ہوتا تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1317]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام غلطی کرے تو عالم آدمی اس کی غلطی واضح کرسکتا ہے۔

(2)
نفل نماز کی ادائیگی سے مراد یہ ہے۔
کہ کراہت کا وقت ختم ہوجائے یہاں اس سے مراد ضحیٰ یعنی چاشت کی نماز کا وقت ہے۔
جیسے کہ طبرانی کی روایت میں ہے۔ (وَذَلِكَ حِيْنَ يُسَبَّحُ الضَُحيٰ)
یہ وہ وقت تھا جب ضحیٰ کے نفل پڑھے جاتے ہیں۔

(3)
مذکورہ حدیث نماز عید جلد ادا کرنے کی مشروعیت اور زیادہ تاخیر کرنے کی کی کراہت پر دلالت کرتی ہے۔
نماز جلدی ادا کرنے کی مشروعیت پر حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم عید کے دن سب کامو ں سے پہلے نماز ادا کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔
کہ عید کے دن نمازعید اور اس کے لئے روانگی کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہونا مناسب نہیں اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ نماز عید جلد ادا کی جائے۔ (فتح الباري: 457/2)
البتہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے کی بابت لکھتے ہیں۔
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید الفطر قدرے تاخیر سے اور نماز عید الاضحیٰ جلدی ادا کرتے تھے۔ (زاد المعاد: 121/1)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1317