سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
176. . بَابٌ في حُسْنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ
باب: قرآن مجید کو اچھی آواز سے پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1338
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَابِطٍ الْجُمَحِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَبْطَأْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بَعْدَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ:" أَيْنَ كُنْتِ؟"، قُلْتُ: كُنْتُ أَسْتَمِعُ قِرَاءَةَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِكَ، لَمْ أَسْمَعْ مِثْلَ قِرَاءَتِهِ وَصَوْتِهِ مِنْ أَحَدٍ، قَالَتْ: فَقَامَ، وَقُمْتُ مَعَهُ حَتَّى اسْتَمَعَ لَهُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ:" هَذَا سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي أُمَّتِي مِثْلَ هَذَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک روز میں نے عشاء کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں دیر کر دی، جب میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہاں تھیں؟ میں نے کہا: آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص کی تلاوت سن رہی تھی، ویسی تلاوت اور ویسی آواز میں نے کسی سے نہیں سنی، یہ سنتے ہی آپ کھڑے ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی کھڑی ہوئی، آپ نے اس شخص کی قراءت سنی، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے، اور فرمایا: یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا کیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16303، ومصباح الزجاجة: 470)، ومسند احمد (6/165) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سالم مولی ابوحذیفہ مشہور قاری اور خوش آواز تھے، یہ دونوں صفات ایک قاری میں بہت کم جمع ہوتی ہیں، اکثر لوگ خوش آواز تو ہوتے ہیں لیکن تجوید یعنی قواعد قراءت سے ناواقف ہوتے ہیں، اور بعض قاری ہوتے ہیں لیکن ان کی آواز اچھی نہیں ہوتی، نیز حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عورت کو اجنبی مرد کی آواز سننے میں کوئی حرج نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1338  
´قرآن مجید کو اچھی آواز سے پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک روز میں نے عشاء کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں دیر کر دی، جب میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہاں تھیں؟ میں نے کہا: آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص کی تلاوت سن رہی تھی، ویسی تلاوت اور ویسی آواز میں نے کسی سے نہیں سنی، یہ سنتے ہی آپ کھڑے ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی کھڑی ہوئی، آپ نے اس شخص کی قراءت سنی، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے، اور فرمایا: یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا کیا ۱؎۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1338]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کوئی شخص تلاوت کر رہا ہو تو خاموشی اور توجہ سے سننا چاہیے۔

(2)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین میں تلاوت سننے کا شوق بہت زیادہ تھا۔

(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین سے تلاوت سنتے تھے۔
اس لئے ایک بڑے عالم یا بلند درجہ شخص کوبھی کم درجہ شخص سے تلاوت سننے میں تکلف نہیں کرنا چاہیے۔

(4)
عورت اجنبی مرد کی تلاوت اور تقریر سن سکتی ہے۔

(5)
کسی کو اللہ نے کوئی خوبی عطا فرمائی ہو تو اس کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں خصوصاً جب تعریف اس کی موجودگی میں نہ ہو۔

(6)
شاگرد کی خوبی استاد کےلئے خوشی کا باعث ہوتی ہے۔
اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
اسی طرح اولاد کی نیکی خوبی اور کمال پر والدین کو اللہ شکر کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1338