سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
202. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي أَوَّلِ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلاَةُ
باب: (قیامت کے دن) بندے سے سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہو گا۔
حدیث نمبر: 1426
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَدَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ أَكْمَلَهَا كُتِبَتْ لَهُ نَافِلَةً، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَكْمَلَهَا قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ لِمَلَائِكَتِهِ: انْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ، فَأَكْمِلُوا بِهَا مَا ضَيَّعَ مِنْ فَرِيضَتِهِ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى حَسَبِ ذَلِكَ".
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہو گی، اگر اس نے نماز مکمل طریقے سے ادا کی ہو گی تو نفل نماز علیحدہ لکھی جائے گی، اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا: دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل نمازیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھر باقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہو گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏حدیث تمیم الداری أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 149 (866)، (تحفة الأشراف: 2054)، وحدیث أبی ہریرة تقدم تخریجہ حدیث رقم: 1425، (تحفة الأشراف: 1425) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 864  
´فرمان نبوی جس شخص کی فرض نماز نامکمل ہو گی اس کو نفل سے پورا کیا جائے گا۔`
انس بن حکیم ضبی کہتے ہیں کہ وہ زیاد یا ابن زیاد سے ڈر کر مدینہ آئے تو ان کی ملاقات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انس کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنا نسب مجھ سے جوڑا تو میں ان سے جڑ گیا، پھر وہ کہنے لگے: اے نوجوان! کیا میں تم سے ایک حدیث نہ بیان کروں؟ انس کہتے ہیں: میں نے کہا: کیوں نہیں! ضرور بیان کیجئے، اللہ آپ پر رحم فرمائے، یونس کہتے ہیں: میں یہی سمجھتا ہوں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں سے ان کے اعمال میں سے جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے پوچھ تاچھ کی جائے گی وہ نماز ہو گی، ہمارا رب اپنے فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے میرے بندے کی نماز کو دیکھو وہ پوری ہے یا اس میں کوئی کمی ہے؟ اگر پوری ہو گی تو پورا ثواب لکھا جائے گا اور اگر کمی ہو گی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا: دیکھو، میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہے؟ اگر نفل ہو گی تو فرمائے گا: میرے بندے کے فرض کو اس کی نفلوں سے پورا کرو، پھر تمام اعمال کا یہی حال ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 864]
864۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہے۔ حدیث [866] اس کی مؤید ہے۔
➋ قیامت کے روز اعمال کا محاسبہ حق ہے۔ ➌ شہادتین کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہو گا۔ [سنن نسائي حديث۔ 466]
جب کہ حقوق العباد میں سب سے پہلے خونوں کا حساب لیا جائے گا۔ [صحيح بخاري۔ حديث6533 وصحيح مسلم حديث 1678]
➍ فرائض کی ادائیگی میں کسی بھی تقصیر سے انسان کو محتاط رہنا چاہیے۔ نیز نوافل کا بھی خوب اہمتام کرنا چاہیے کیونکہ ان ہی سے فرضوں کی کمی پوری کی جائے گی۔
➎ نوافل خصوصاً سنن راتبہ (موکد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ہیں۔ سفر کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی انہیں ترک نہیں فرمایا بلکہ بعض اوقات تاخیر ہونے پر ان کی قضا بھی ادا کی ہے۔ کچھ صالحین کا کہنا ہے کہ سنن و نوافل کی پابندی فرائض پر پابندی کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہے اور جو شخص سنن میں غفلت کرتا ہے۔ عین ممکن ہے فرائض میں غفلت کا مرتکب ہو جائے۔
➏ وہ احادیث جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نو مسلم بدووں کو صرف فرائض کی پابندی کے عہد پر انہیں جنت کی خوشخبری دی۔ وہ اول تو ابتدائے اسلام کی بات ہے۔ یہی لوگ جوں جوں حق کو سمجھتے گئے، نوافل میں بہت آگے بڑھتے چلے گئے۔ جیسے کہ ان کی سیرتیں واضح کرتی ہیں۔ دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت مبارکہ سے انہیں ایسا تزکیہ حاصل ہو جاتا تھا کہ ان کے فرائض ہی سے اس اعلیٰ پائے کہ ہو جاتے تھے کہ وہ نوافل نہ بھی پڑھتے تو ان کی کامیابی کی ضمانت اور خوشخبری زبان رسالت سے جاری ہو گئی تھی۔ لہٰذا دیگر مسلمانوں کا اس معاملے میں اپنے آپ کو ان پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے اور صرف فرائض پر تکیہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ بلکہ یوم الحسرۃ کو پیش نظر رکھتے ہوئے مذید در مذید تقرب الیٰ اللہ کوشش کرنی چاہیے۔ «وبالله التوفيق»
ہاں بعض اوقات کسی عذر کی بنا پر سنتیں رہ جایئں تو ان کی قضا کرنا واجب نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 864