صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
44. بَابُ يُفْطِرُ بِمَا تَيَسَّرَ عَلَيْهِ بِالْمَاءِ وَغَيْرِهِ:
باب: پانی وغیرہ جو چیز بھی پاس ہو اس سے روزہ افطار کر لینا چاہئے۔
حدیث نمبر: 1956
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ سُلَيْمَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَمْسَيْتَ، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، فَنَزَلَ فَجَدَحَ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ أَقْبَلَ مِنْ هَاهُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے، جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، انہوں نے کہا یا رسول اللہ! تھوڑی دیر اور ٹھہرئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول انہوں نے پھر یہی کہا کہ یا رسول اللہ! ابھی تو دن باقی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتر کر ستو ہمارے لیے گھول، چنانچہ انہوں نے اتر کر ستو گھولا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات کی تاریکی ادھر سے آ گئی تو روزہ دار کو روزہ افطار کر لینا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2352  
´روزہ افطار کرنے کے وقت کا بیان۔`
سلیمان شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے آپ روزے سے تھے، جب سورج غروب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! (سواری سے) اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر اور شام ہو جانے دیں تو بہتر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، بلال رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: اللہ کے رسول! ابھی تو دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، چنانچہ وہ اترے اور ستو گ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2352]
فوائد ومسائل:
(1) سورج غروب ہوتے ہی افطار کا وقت ہو جاتا ہے۔
بعد از غروب انتظار یا احتیاط کے کوئی معنی نہیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا تعمیل ارشاد نبوی میں تردد فضا میں سفیدی وغیرہ کی وجہ سے تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ سورج شاید کسی پہاڑ وغیرہ کی اوٹ میں ہے۔
حالانکہ فی الواقع سورج غروب ہو چکا تھا جیسا کہ راوی حدیث نے بیان کیا۔

(2) اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ظاہر امور کی وضاحت کروا لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا، تاکہ امکانی شبہے کا ازالہ ہو جائے۔

(3) نیز صاحب علم کو یاد دلانا کوئی معیوب بات نہیں نہ یہ سوء ادبی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2352   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1956  
1956. حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر کیا۔ آپ نے روزہ رکھاہوا تھا۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے(کسی سے) فرمایا: اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! شام تو ہونے دیجئے آپ نے فرمایا: اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر۔ اس نے پھر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ابھی دن باقی ہے۔ آپ نے فرمایا: اتر اور ہمارے لیے ستو بنا۔ وہ اترا اور آپ کے لیے ستو تیار کیے، پھر آپ نے فرمایا: جب تم رات کو دیکھو کہ وہ ادھر سے آگئی ہے تو روزے دار اپنا روزہ افطار کردے۔ آپ نے ا پنی انگشت مبارک سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1956]
حدیث حاشیہ:
حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ ستو پانی سے گھولے گئے تھے اور اس وقت یہی حاضر تھا تو پانی وغیرہ ماحضر سے روزہ کھولنا ثابت ہوا۔
ترمذی نے مرفوعاً نکالا کہ کھجور سے روزہ افطار کرے اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے۔
(وحیدی)
حضرت مسدد بن مسرہد امام بخاری کے جلیل القدر اساتذہ میں سے ہیں اور جامع الصحیح میں ان سے بکثرت روایات ہیں۔
یہ بصرہ کے باشندے تھے۔
حماد بن زید اور ابوعوانہ وغیرہ سے حدیث کی سماعت فرمائی۔
ان سے امام بخاری ؒ کے علاوہ اور بھی بہت سے محدثین نے روایت کی ہے۔
228ھ میں انتقال ہوا۔
رحمهم اللہ تعالیٰ علیهم أجمعین (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1956   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1956  
1956. حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر کیا۔ آپ نے روزہ رکھاہوا تھا۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے(کسی سے) فرمایا: اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! شام تو ہونے دیجئے آپ نے فرمایا: اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر۔ اس نے پھر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ابھی دن باقی ہے۔ آپ نے فرمایا: اتر اور ہمارے لیے ستو بنا۔ وہ اترا اور آپ کے لیے ستو تیار کیے، پھر آپ نے فرمایا: جب تم رات کو دیکھو کہ وہ ادھر سے آگئی ہے تو روزے دار اپنا روزہ افطار کردے۔ آپ نے ا پنی انگشت مبارک سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1956]
حدیث حاشیہ:
(1)
ستو چونکہ پانی میں تیار کیے جاتے ہیں اور اس وقت یہی کچھ موجود تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں تیار کرنے کا حکم دیا۔
امام بخاری ؒ نے اسی سے عنوان ثابت کیا ہے۔
اس کے علاوہ ترمذی میں ہے کہ روزے دار کو چاہیے کہ وہ کھجور سے روزہ افطار کرے اور اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے روزہ کھول لے۔
(سنن الترمذي، الصیام، حدیث: 694) (2)
چونکہ افطاری کے وقت روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے، اس لیے مندرجہ ذیل دعا پڑھنا مسنون ہے:
(ذهب الظمأُ وابتلتِ العروقُ وثبت الأجرُ إن شاءالله)
پیاس ختم ہو گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اللہ کے ہاں اجر، ان شاءاللہ، ثابت ہو گیا۔
(سنن أبي داود، الصیام، حدیث: 2357) (3)
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مخاطب حضرت بلال ؓ تھے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں صراحت ہے۔
(سنن أبي داود، الصیام، حدیث: 2352)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی کا بندوبست کرنے والے کو بلایا، رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ خدمت سرانجام دینے والے حضرت بلال ؓ ہیں جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
(4)
اس حدیث سے اظہار خیال کی آزادی ثابت ہوتی ہے اگرچہ وہ خیال امر واقعہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اس لیے ہر شخص کو اپنے اظہار خیال کا حق ہے مگر جب وہ غلط ثابت ہو جائے تو حق کو تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1956