سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز -- کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
33. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى النَّجَاشِيِّ
باب: نجاشی کی نماز جنازہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1535
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ جَمِيعًا، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ أَخَاكُمُ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ فَصَلُّوا عَلَيْهِ"، قَالَ: فَقَامَ فَصَلَّيْنَا خَلْفَهُ، وَإِنِّي لَفِي الصَّفِّ الثَّانِي، فَصَلَّى عَلَيْهِ.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے (دینی) بھائی نجاشی کا انتقال ہو گیا ہے، ان کی نماز جنازہ پڑھو عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ کھڑے ہوئے، اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی، میں دوسری صف میں تھا، تو دو صفوں نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 48 (1039)، سنن النسائی/الجنائز 72 (1977)، (تحفة الأشراف: 10889)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجنائز 22 (953)، مسند احمد (4/431، 433، 441) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1039  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایا: تمہارے بھائی نجاشی ۱؎ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو۔‏‏‏‏ تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1039]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھاجیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصراورایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا،
نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجرتھا اسی بادشاہ کے دورمیں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی،
نبی اکرمﷺ نے 6ھ؁ کے آخر یا محرم 7ھ؁ میں نجاشی کو عمروبن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی توانہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا،
اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اوراپنے تخت شاہی سے نیچے اترآیا اورجعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرمﷺکو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوئہ تبوک 9ھ؁ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی۔

2؎:
اس سے بعض لوگوں نے صلاۃِجنازہ غائبانہ کے جواز پراستدلال کیا ہے،
صلاۃِ جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگرمیت کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اوراگرپڑھی جاچکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ اداہوگیا الا یہ کہ کوئی محترم اورصالح شخصیت ہو تو پڑھنابہترہے یہی قول امام احمدبن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرمﷺ سے ثابت نہیں ہے اورنہ ہی تعامل امت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1039