صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
48. بَابُ الْوِصَالِ، وَمَنْ قَالَ لَيْسَ فِي اللَّيْلِ صِيَامٌ:
باب: پے در پے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا۔
حدیث نمبر: 1962
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوِصَالِ"، قَالُوا: إِنَّكَ تُوَاصِلُ، قَالَ: إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَى.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال سے منع فرمایا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ تو وصال کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، مجھے تو کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 259  
´وصال کے روزے کی ممانعت ہے`
«. . . 209- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الوصال، فقالوا: يا رسول الله فإنك تواصل، فقال: إني لست كهيئتكم، إني أطعم وأسقي. . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو لوگوں نے پوچھا: یا رسو ل اللہ! آپ تو خود وصال کے روزے رکھتے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے جیسا نہیں ہوں، مجھے (وصال کے روزوں کے دوران میں) کھلایا اور پلایا جاتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 259]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1962، ومسلم 1102، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ وصال کے روزے سے مراد یہ ہے کہ شام کو افطار کرنے کے بعد سحری نہ کھائی جائے بلکہ اگلے دن شام تک روزہ رکھ کر غروب آفتاب کے ساتھ افطار کیا جائے۔ اس طرح یہ چوبیس گھنٹے کا روزہ بن جاتا ہے۔
➋ امت پر شفقت اور رحمت کی وجہ سے وصال کا روزہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
➌ بشر ہونے کے باوجود امتی اور نبی برابر نہیں ہیں۔
➍ روزے کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وصال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر کھلایا پلایا جاتا تھا جبکہ اُمتیوں کے لئے ایسا نہیں ہے۔
➎ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹوں پر (بھوک کی تکلیف سے بچنے کے لئے) ایک ایک پتھر بندھا ہوا دکھایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پتھر (بندھے ہوئے) دکھائے۔ [سنن الترمذي: 2371 وسنده حسن لذاته]
◈ یہ روایت حسن لذاتہ یعنی حجت ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف سے اپنے رسول کو کھلانا پلانا وصال کے روزوں کے ساتھ خاص ہے ورنہ آپ دوسرے ایام میں بھوک بھی برداشت کرتے تھے۔ [نيز ديكهئے ح344]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 209   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2360  
´صوم وصال (مسلسل روزے رکھنے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال (مسلسل روزے رکھنے) سے منع فرمایا ہے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ تو مسلسل روزے رکھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں، مجھے تو کھلایا پلایا جاتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2360]
فوائد ومسائل:
(1) بغیر افطار کیے کئی کئی روز مسلسل روزے رکھنا وصال کہلاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس طرح روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

(2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جو خصوصیت بیان فرمائی ہے اس میں امت میں سے کوئی بھی آپ کا شریک و سہیم نہیں ہے۔
جو زاہد اور صوفیا قسم کے لوگ بغیر افطار مسلسل روزے رکھتے ہیں، ان کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے سراسر خلاف ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2360