سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز -- کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
39. بَابُ : مَا جَاءَ فِي اسْتِحْبَابِ اللَّحْدِ
باب: بغلی قبر (لحد) کے مستحب ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1554
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَبْدِ الْأَعْلَى يَذْكُرُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّحْدُ لَنَا، وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغلی قبر (لحد) ہمارے لیے ہے، اور صندوقی اوروں کے لیے ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجنائز 65 (3208)، سنن الترمذی/الجنائز 53 (1045)، سنن النسائی/الجنائز85 (2011)، (تحفة الأشراف: 5542) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 585)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بغلی قبر کو لحد کہتے ہیں اور ضرح اور شق صندوقی قبر کو جو بہت مشہور ہے، اس حدیث سے لحد کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس وجہ سے کہ اس میں مردے پر مٹی گرانی نہیں ہوتی، جو ادب واحترام کے خلاف ہے، نیز اس سے صندوقی قبر کی ممانعت مقصود نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1554  
´بغلی قبر (لحد) کے مستحب ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغلی قبر (لحد) ہمارے لیے ہے، اور صندوقی اوروں کے لیے ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1554]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔
کہ لحد بنانا مستحب ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے اتفاق سے رسول اللہ ﷺ کے لئے لحد ہی کھو دی گئی تھی۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، بشرح النووی، کتاب الجنائز، باب فی اللحد ونصب اللبن علی المیت: 49/48/7، حدیث: 966)
 لہٰذا جہاں لحد (بغلی قبر بن سکتی ہو وہاں لحد بنانا مستحب اورافضل ہے۔
البتہ شق (صندوقی قبر)
بنانا بھی جائز ہے۔
جیسا کہ آئندہ آنے والی احادیث میں اس کی صراحت ہے۔
واللہ أعلم۔

(2)
لحد یعنی بغلی قبر سے مراد یہ ہے کہ پہلے گڑھا کھودا جائے پھر اس میں ایک طرف میت کے لئے جگہ بنا کر اس میں میت کو رکھا جائے۔
اور شق کا مطلب یہ ہے کہ بڑا گڑھا کھود کر اس کے درمیان میں میت کےلئے نسبتاً چھوٹا گڑھا کھوداجائے۔

(3)
دونوں طرح قبر بنانا جائز ہے۔
کیونکہ رسول اللہﷺ کے زمانوں میں دونوں طریقوں پر عمل ہوتا تھا۔
جیسے کہ آئندہ حدیث سے ظاہر ہے۔

(4)
شق (صندوقی قبر)
دوسروں کے لئے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمارے لئے جائز نہیں غالباً اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلموں میں زیادہ شق (صندوقی قبر)
کا رواج ہے۔
اور مسلمان زیادہ تر لحد (بغلی قبر)
بناتے ہیں۔
 واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1554   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1045  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد بغلی ہمارے لیے ہے اور صندوقی اوروں کے لیے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغلی قبر ہمارے لیے ہے اور صندوقی قبر اوروں کے لیے ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1045]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اہل کتاب کے لیے ہے،
مقصود یہ ہے کہ بغلی قبر افضل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ «الَّلحْدُ لَنَا»  کا مطلب ہے «اللحد لِيْ» یعنی بغلی قبر میرے لیے ہے جمع کا صیغہ تعظیم کے لیے ہے یا  «الَّلحْدُ لَنَا»  کا مطلب  «الَّلحْدُ اِخْتِيَارُنَا»  ہے یعنی بغلی قبر ہماری پسندیدہ قبر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ صندوقی قبر مسلمانوں کے لیے نہیں ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مدینہ میں قبر کھودنے والے دو شخص تھے ایک بغلی بنانے و الا دوسرا شخص صندوقی بنانے والا اگر صندوقی ناجائز ہوتی تو انہیں اس سے روک دیا جاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1045   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3208  
´قبر میں لحد بنانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لحد (بغلی قبر) ہمارے لیے ہے، اور شق (صندوقی قبر) دوسروں کے لیے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3208]
فوائد ومسائل:

قبر کا بڑا گڑھا کھود کر اس کے قبلہ رخ پہلو میں اندر کی طرف ایک گڑھا بنانا لحد کہلاتا ہے۔
اور اگرسیدھا نیچے کی سطح میں بنایا جائے تو اسے شق کہتے ہیں۔

زمین سخت ہو تو لحد بنانا مستحب ہے ورنہ شق بھی جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3208