سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز -- کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
54. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْمَيِّتِ يُعَذَّبُ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ
باب: میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 1594
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ ، حَدَّثَنَا أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ إِذَا قَالُوا: وَاعَضُدَاهُ، وَاكَاسِيَاهُ، وَانَاصِرَاهُ، وَاجَبَلَاهُ، وَنَحْوَ هَذَا يُتَعْتَعُ، وَيُقَالُ: أَنْتَ كَذَلِكَ أَنْتَ كَذَلِكَ"، قَالَ أَسِيدٌ: فَقُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ، يَقُولُ: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164، قَالَ: وَيْحَكَ، أُحَدِّثُكَ أَنَّ أَبَا مُوسَى، حَدَّثَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَرَى أَنَّ أَبَا مُوسَى كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ تَرَى أَنِّي كَذَبْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى.
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردے کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، جب لوگ کہتے ہیں: «واعضداه واكاسياه. واناصراه واجبلاه» ہائے میرے بازو، ہائے میرے کپڑے پہنانے والے، ہائے میری مدد کرنے والے، ہائے پہاڑ جیسے قوی و طاقتور اور اس طرح کے دوسرے کلمات، تو اسے ڈانٹ کر کہا جاتا ہے: کیا تو ایسا ہی تھا؟ کیا تو ایسا ہی تھا؟ اسید کہتے ہیں کہ میں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے: «ولا تزر وازرة وزر أخرى» کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا تو انہوں (موسیٰ) نے کہا: تمہارے اوپر افسوس ہے، میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان فرمائی، تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ہے؟ یا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ پر جھوٹ باندھا ہے؟۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9031، ومصباح الزجاجة: 576)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز 24 (1003)، مسند احمد (4/ 414) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1594  
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردے کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، جب لوگ کہتے ہیں: «واعضداه واكاسياه. واناصراه واجبلاه» ہائے میرے بازو، ہائے میرے کپڑے پہنانے والے، ہائے میری مدد کرنے والے، ہائے پہاڑ جیسے قوی و طاقتور اور اس طرح کے دوسرے کلمات، تو اسے ڈانٹ کر کہا جاتا ہے: کیا تو ایسا ہی تھا؟ کیا تو ایسا ہی تھا؟ اسید کہتے ہیں کہ میں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے: «ولا تزر وازرة وزر أخرى» کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا تو انہوں (موسیٰ) نے کہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1594]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث سے اس عذاب کی وضاحت ہوگئی ہے۔
جو رونے والوں کی وجہ سے مرنے والوں کو ہوتا ہے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس حدیث میں رونے سے مراد محض آنسو بہانا نہیں بلکہ زبان سے نا مناسب الفاظ نکالنا میت کے عذاب کا باعث بنتا ہے۔

(2)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگرد کے اشکال کے جواب میں سند کی صحت کی طرف توجہ دلائی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح حدیث کبھی قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوتی۔
البتہ بعض اوقات ظاہری طور پر اختلاف محسوس ہوتا ہے۔
ایسے موقع پر آیت اور حدیث میں اسی طرح موافقت پیدا کی جاتی ہے۔
جس طرح قرآن مجید کی دو آیات اگر باہم متعارض محسوس ہوں تو علمائے کرام انکے اس انداز سے وضاحت فرما دیتے ہیں۔
کہ دونوں میں اختلاف نہیں رہتا۔

(3)
قرآن مجید کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو اس بات پر گھمنڈ نہیں کرناچاہیے۔
کہ میرے آباواجداد میں سے فلاں صاحب بزرگ او رنیک آدمی تھے۔
لہٰذا قیامت میں بھی مجھے نجات مل جائے گی۔
اور نہ کسی کو اس کی وجہ سے حقیر سمجھناچاہیے۔
کہ اس کے باپ دادا نیک نہیں تھے۔
بلکہ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اسے ثواب ملے گا۔
اور جو گناہ کرتا ہے اُسے عذاب ہوگا۔

(4)
جو شخص کسی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے۔
تو نیکی کرنے والے کے برابر اسے بھی ثواب ملتا ہے۔
یہ کہ ایک شخص کے عمل کا ثواب دوسرے کو نہیں ملا۔
بلکہ یہ خود اس کے اس عمل کا ثواب ہے۔
جو کہ اس نے نیکی کی ترغیب دی تھی۔
اس ترغیب کا ثواب دوسرے کے عمل کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح گناہ کی ترغیب دینے کی وجہ سے سزا میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
قرآن مجید کی آیت اس حققیت کی تردید نہیں کرتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1594   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 476  
´دوسرے کے رونے کی وجہ سے مرنے والے کے لیے عذاب`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرنے والے کو اس پر نوحہ کرنے والوں کے سبب سے قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 476]
فائدہ:
اس حدیث میں ایک اشکال ہے کہ اس طرح تو کسی دوسرے کے رونے کی وجہ سے مرنے والے کے لیے عذاب ثابت ہو رہا ہے، حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَلَا تَزِرُوَازِرَةٌ وٌزَرَاُخْرٰي» [بني اسرائيل: 15، 17]
کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
علمائے کرام نے اس اشکال کے متعدد جواب دیے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر نوحہ مرنے والے کا اپنا طریقہ بھی تھا اور زندگی میں اس نے اسے برقرار رکھا تو اس صورت میں اسے عذاب ہو گا ورنہ نہیں۔ اور ایک جواب یہ بھی ہے کہ مرنے والے کو عذاب اس صورت میں ہو گا کہ وہ خود اس کی وصیت کر گیا ہو، بصورت دیگر اسے عذاب نہیں دیا جائے گا۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 476