سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز -- کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
64. بَابُ : مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔
حدیث نمبر: 1625
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ سَفِينَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ:" الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ" فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتَّى مَا يَفِيضَ بِهَا لِسَانُهُ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس مرض میں کہ جس میں آپ کا انتقال ہو گیا، فرما رہے تھے: «الصلاة وما ملكت أيمانكم» نمسش کا، اور لونڈیوں اور غلاموں کا خیال رکھنا آپ برابر یہی جملہ کہتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی زبان مبارک رکنے لگی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18154، ومصباح الزجاجة: 590)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/290، 311، 315، 321) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کا بڑا خیال تھا کیونکہ نماز توحید باری تعالیٰ کے بعد اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی رکن ہے، اسی لئے وفات کے وقت بھی آپ نے اس کے لئے وصیت فرمائی، مطلب یہ تھا کہ نماز کی محافظت کرو، وقت پر پڑھو، شرائط اور ارکان کے ساتھ ادا کرو، دوسرا اہم مسئلہ لونڈی اور غلام کا تھا، آپ کی وصیت کا مقصد یہ تھا کہ لوگ لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور ان پر ظلم نہ کریں۔ جو لوگ غلامی کی وجہ سے اسلام پر تنقید کرتے ہیں ان کو یہ خبر نہیں ہوئی کہ درحقیقت غلامی کیا ہے گویا فرزندی میں لینا ہے اور اپنی اولاد کی طرح ایک بے وارث شخص کی پرورش کرنا ہے، اس میں عقلاً کون سی قباحت ہے؟ بلکہ قیدیوں کے گزارے کے لئے اس سے بہتر دوسری کوئی صورت عقل ہی میں نہیں آتی، البتہ اس زمانہ میں بعض جاہل لوگ لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کرتے تھے تو یہ بری بات ہے، مگر دین اسلام پر یہ تنقید صحیح نہیں ہے کیونکہ اسلام نے تو ایسے برتاؤ سے منع کیا ہے، اور ان کے ساتھ بار بار نیک سلوک کرنے کی وصیت کی ہے یہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک اسی پر بے قابو ہو گئی، اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی صلی اللہ علیہ وسلم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1625  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس مرض میں کہ جس میں آپ کا انتقال ہو گیا، فرما رہے تھے: «الصلاة وما ملكت أيمانكم» نمسش کا، اور لونڈیوں اور غلاموں کا خیال رکھنا آپ برابر یہی جملہ کہتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی زبان مبارک رکنے لگی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1625]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور انھی کی رائے أَقرَبُ إِلَی الصَّوَاب معلوم ہوتی ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 261/44، والإرواء: 238/7،   وسنن ابن ماجة للدکتور  بشار عواد، حدیث: 1625)

(2)
رسول اللہﷺ نے زندگی کے آخری لمحات میں جو نصیحت فرمائی۔
وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے تعلق رکھتی ہے۔
اسلا م میں یہ دونوں پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

(3)
حقوق اللہ میں نماز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
یہ وہ عمل ہے جسے مسلمان اور کافر کے درمیان پہچان قرار دیا گیا ہے۔
اور اس کے ترک کو کفر وشرک قرار دیا گیا ہے۔
اللہ کے ر سولﷺ نے فرمایا۔ (إِنَّ بَيْنَ الَّرجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْر تَرْكُ الصَّلَاةِ)
 (صحیح مسلم، الإیمان، باب بیان إطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ، حدیث: 82)
 بے شک انسان کے درمیان اور شرک وکفر کے درمیان ترک نماز کا معاملہ ہے۔
یعنی ترک نماز کفر سے ملا دیتا ہے۔

(4)
حقوق العباد میں غلاموں کا ذکر فرمایا کیونکہ غلام معاشرے کا مظلوم طبقہ تھا جسے اسلام نے بہت سے حقوق دے کر ان کا درجہ بلند کردیا۔
انھیں آقاؤں کے بھائی قراردیا۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے۔
تمھارے خادم تمھارے بھائی ہیں۔
جس کا بھائی اس کے زیردست ہو تو اسے چاہیے کہ جو خود کھائے اسے کھلائے جو خود پہنے اسے پہنائے۔ (صحیح البخاري، الإیمَان باب المعاصی من امر الجاھلی۔
۔
۔
، حدیث: 30)

 آجکل کے ذاتی ملازم اور زمین داروں کے مزارع اگرچہ شرعاً اور عرفاً غلام نہیں تاہم جس طرح وہ حالات کی وجہ سے اپنے آقاؤں کی سختیاں برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اس کو دیکھتے ہوئے رسول للہﷺ کی وصیت ان کے بارے میں بھی سمجھی جاسکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1625