صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
52. بَابُ صَوْمِ شَعْبَانَ:
باب: ماہ شعبان میں روزے رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1969
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ، حَتَّى نَقُولَ: لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: لَا يَصُومُ، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبری دی، انہیں ابوالنضر نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفل روزہ رکھنے لگتے تو ہم (آپس میں) کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھنا چھوڑیں گے ہی نہیں۔ اور جب روزہ چھوڑ دیتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ میں نے رمضان کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی پورے مہینے کا نفلی روزہ رکھتے نہیں دیکھتا اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 264  
´رمضان کے بعد شعبان کے روزوں کی اہمیت`
«. . . 424- وبه: أنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول لا يفطر، ويفطر حتى نقول لا يصوم؛ وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر قط إلا رمضان، وما رأيته فى شهر أكثر صياما منه فى شعبان. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنا شروع کرتے حتیٰ کہ ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اب) افطار نہیں کریں گے اور افطار کرنا شروع کرتے حتیٰ کہ ہم کہتے آپ (اب) روزے نہیں رکھیں گے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں سب سے زیادہ روزے رکھے ہوں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 264]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1969، ومسلم 175/1156، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ رمضان کے علاوہ بھی دوسرے مہینوں میں کثرت سے روزے رکھنا مسنون اور بہت ثواب کا کام ہے۔
➋ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس آدمی کے رمضان کے روزے رہ گئے ہوں اور دوسرا رمضان آ جائے تو وہ (رمضان کے بعد) ہر روزے کی قضا بھی ادا کرے گا اور ہر روزے کے بدلے میں مسکین کو کھانا بھی کھلائے گا۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 253/4 و سنده قوي، رواية شعبه عن المدلسين محمولة على السماع]
◄ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو (رمضان) حاضر ہے اس کے روزے رکھے اور (بعد میں) دوسرے کے روزے رکھے اور ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ [سنن الدارقطني 2/197 ح2321 وسنده حسن وقال الدارقطني: إسناد صحيح، السنن الكبريٰ للبيهقي 4/253]
➌ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ نے فرمایا: جس آدمی پر رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہو اور وہ روزے رکھنے پر قوت کے باوجود اگلے رمضان تک روزے نہ رکھے حتیٰ کہ رمضان آجائے تو اسے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا اور اس کے ساتھ قضا بھی رکھنا ہوگی۔ [الموطأ 1/308 ح691 ملخصاً وسنده صحيح]
➍ اگر بعض نوافل اور ثواب کے کاموں میں ہمیشگی نہ بھی ہو سکے تو جائز ہے لیکن افضل یہی ہے کہ مستقل مزاجی کے ساتھ ان امور کو سر انجام دیا جائے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 424   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1710  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزوں کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے ہی رکھتے جائیں گے، اور روزے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھیں گے ہی نہیں، اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ سوائے چند روز کے پورے شعبان روزے رکھتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1710]
اردو حاشہ:
نفلی روزے مسلسل رکھنا بھی جا ئز ہے جب کے ہر روزہ افطار کیا جا ئے یعنی وصال نہ کیا جا ئے کیو نکہ وہ ہما رے لئے ممنو ع ہے۔ دیکھیے (صحیح البخاری الصوم باب الوصال حدیث 1961 وصحیح مسلم الصیام باب النھی عن الوصال حدیث 1102)
۔ 2۔
نفلی روزے سا ل کے ہر مہینے میں رکھے جا سکتے ہیں 3 مسلسل ایک مہینہ نفلی روزے رکھنا خلا ف سنت ہے 4 ما ہ شعبان میں نفلی روزوں کا اہتمام زیا دہ ہو نا چا ہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1710   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 768  
´پے در پے روزہ رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے خوب روزے رکھے، پھر آپ روزے رکھنا چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے بہت دنوں سے روزہ نہیں رکھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے پورے روزے نہیں رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 768]
اردو حاشہ:
1؎:
اس کی وجہ یہ تھی تاکہ کوئی اس کے وجوب کا گمان نہ کرے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 768   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1969  
1969. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نفلی روزے اس قدر رکھتے کہ ہم کہتیں: اب آپ کبھی روزہ ترک نہیں کریں گے اور جب چھوڑ دیتے تو ہمیں خیال ہوتا کہ اب آپ کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1969]
حدیث حاشیہ:
شعبان کی وجہ تسمیہ حافظ صاحب کے لفظوں میں یہ ہے لتشعبهم في طلب المیاہ أو في الغارات بعد أن یخرج شهر رجب الحرام (فتح)
یعنی اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں متفرق ہو جایا کرتے تھے، یا ماہ رجب کے خاتمہ پر جس میں اہل عرب قتل و غارت وغیرہ سے بالکل رک جایا کرتے تھے، اس ماہ میں وہ ایسے مواقع کی پھر تلاش کرتے۔
اسی لیے اس ماہ کو انہوں نے شعبان سے موسوم کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1969